Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان: محمد نور مسکانزئی کو کیوں قتل کیا گیا؟

محمد نور مسکانزئی پر حملے کی ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی ہے (فائل فوٹو)
پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں پولیس حکام نے فیڈرل شریعت کورٹ اور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی کے قتل کو ابتدائی تفتیش کے بعد دہشتگردی کا واقعہ کو قرار دیا ہے۔
قتل کی تحقیقات کے لیے ڈی آئی جی سی ٹی ڈی کی سربراہی میں ایک خصوصی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے جبکہ حملے کی ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی ہے۔
ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس نذیر احمد کرد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ابتدائی تفتیش میں یہ واقعہ دہشتگردی کا معلوم ہوتا ہے اور اس کی ذمہ داری بھی ایک کالعدم تنظیم نے قبول کی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کی تفتیش سی ٹی ڈی کے سپرد کردی گئی ہے۔
محکمہ داخلہ بلوچستان کے مطابق حملے کا مقدمہ سی ٹی ڈی تھانہ خاران میں محمد نور مسکانزئی کے بیٹے کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف اقدام قتل، اقدام قتل اور انسداد دہشتگردی کی دفعات کے تحت درج کرلیا گیا ہے۔
محکمہ داخلہ کے بیان کے مطابق جے آئی ٹی کے سربراہ ڈی آئی جی سی ٹی ڈی بلوچستان ہوں گے جبکہ باقی سات ممبران میں ڈی آئی جی رخشان، ایس ایس پی انویسٹی گیشن کوئٹہ، ایس پی سپیشل برانچ، آئی ایس آئی، ایم آئی، آئی بی اور ایف سی انٹیلی جنس یونٹ کے نمائندے اور متعلقہ تفتیشی افسر شامل ہوں گے۔
ٹیم ایک ماہ میں اپی رپورٹ انسداد دہشتگردی عدالت کو جع کرائے گی۔

محمد نور مسکانزئی کو کیسے قتل کیا گیا؟

رخشان ڈویژن کے ڈی آئی جی پولیس نذیر احمد کرد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ نور مسکانزئی کو جمعے کی شب عشاء کی فرض نماز پڑھنے کے بعد سنت اور نوافل ادا کررہے تھے۔ اس وقت تک مسجد خالی ہو چکی تھی اور وہاں صرف امام مسجد اور ان کے بہنوئی حاجی ممتاز موجود تھے۔‘

کالعدم تنظیم کے ترجمان نے محمد نور مسکانزئی کے قتل کی وجہ توتک کمیشن کے فیصلے کو قرار دیا (فائل فوٹو)

انہوں نے بتایا کہ ’اس دوران نامعلوم حملہ آوروں نے کھڑکی سے محمد نور مسکانزئی پر دس گولیاں چلائیں جن میں سے چار انہیں کمر کے نیچے اور پیٹ میں لگیں۔ اس حملے میں ان کے بہنوئی کو بھی ٹانگ میں گولی لگی۔‘
نذیر احمد کرد کے مطابق ’یہ چھوٹی سی مسجد ان کے گھر سے صرف 100 فٹ کے فاصلے پر تھی اور یہاں زیادہ تر مقتول کے رشتے دار ہی نماز پڑھنے آتے تھے۔‘
ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ ’سابق چیف جسٹس پر حملے سے متعلق کسی خطرے کی پیشگی اطلاع نہیں تھی لیکن انہیں سکیورٹی کے لیے پولیس اہلکار دیے گئے تھے۔‘
ایس ایچ او خاران محمد قاسم نے بتایا کہ حملے کے وقت ایک پولیس اہلکار مسجد کے دوسرے حصے میں موجود تھا جبکہ ان کے گھر کے قریب ایک چوکی بھی قائم تھی تاہم موٹر سائیکل سوار حملہ آور دوسری طرف سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

سابق چیف جسٹس کو کیوں قتل کیا گیا؟

محمد نور مسکانزئی کے قتل کی ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے دو میں سے ایک دھڑے نے قبول کی ہے۔ بی ایل اے چند سال قبل اسلم اچھو گروپ اور آزاد گروپ میں تقسیم ہو گئی تھی۔
بی ایل اے (آزاد گروپ )کے ترجمان آزاد بلوچ نے ابتدائی بیان میں نور محمد مسکانزئی کو ’ہائی پروفائل ہدف‘ قرار دیا تھا۔
حملے کے ایک دن بعد ٹیلی گرام پر جاری کیے گئے تفصیلی بیان میں کالعدم تنظیم کے ترجمان نے محمد نور مسکانزئی کے قتل کی وجہ توتک کمیشن کے فیصلے کو قرار دیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اس سے پہلے 2015ء میں بھی سابق چیف جسٹس کو نوشکی میں ایک بم حملے میں نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی تاہم وہ محفوظ رہے۔

توتک کا واقعہ اور کمیشن کی رپورٹ کیا تھی؟

جنوری 2014ء میں بلوچستان کے ضلع خضدار کے علاقے توتک میں اجتماعی قبر دریافت ہوئی تھی جس میں سے مجموعی طور پر 17 افراد کی تشدد زدہ لاشیں (باقیات) ملی تھیں۔
لاپتہ افراد کے لواحقین اور بلوچ سیاسی تنظیموں کا کہنا تھا کہ یہ لاشیں لاپتہ افراد کی ہیں لہذا تحقیقات کی جائیں۔
اس وقت کے وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ نے معاملے کی تحقیقات کے لیے بلوچستان ہائی کورٹ کے جج محمد نور مسکانزئی پر مشتمل یک رکنی عدالتی کمیشن بنایا تھا۔
اس کمیشن نے مئی 2014ء کو اپنی رپورٹ بلوچستان حکومت کو جمع کرائی تھی جسے حکومت نے خفیہ رکھا۔
اگست 2014ء میں تین صفحوں کی ایک پریس ریلیز میں کمیشن کی رپورٹ کے کچھ مندرجات اور سفارشات کو منظر عام پر لایا گیا۔
رپورٹ میں حکومت، مسلح فورسز اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اجتماعی قبروں کے معاملے میں ملوث ہونے کے امکان کو مسترد کیا گیا تھا اور یہ کہا گیا تھا کہ ایک گواہ کے سوا کسی نے حکومت اور اداروں کے خلاف بیان ریکارڈ نہیں کرایا۔
تاہم عدالتی کمیشن نے شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے آئینی فرض کی انجام دہی میں حکومت کو غفلت کا مرتکب قرار دیا تھا۔
کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’انگلیاں اس وقوعہ کی مناسبت سے (سابق نگراں وزیراعلیٰ کے بیٹے )میر شفیق الرحمان اور اس کے ساتھیوں کی طرف ہی اُٹھتی ہیں۔‘

محمد نور مسکانزئی اپنے قتل سے چند ماہ قبل مئی 2022ء میں فیڈرل شریعت کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے سے سبکدوش ہوئے تھے (فائل فوٹو)

جسٹس محمد نور مسکانزئی کے اہلخانہ نے کالعدم تنظیم کے بیان پرکوئی تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے تاہم مقتول کے بیٹے گل خان مسکانزئی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہمارے والد مطمئن زندگی گزار رہے تھے، انہیں اور نہ ہی خاندان میں کسی کو کسی خطرے کا ادارک تھا۔ والد خاران میں امن وامان کی خراب صورتحال کے پیش نظر معمول کی سیکورٹی پاس رکھتے تھے۔‘
کوئٹہ بار ایسوسی ایشن کے صدر اجمل کاکڑ نے سابق چیف جسٹس کے قتل کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔

بلوچستان میں ججز پر حملے:

بلوچستان میں اس سے پہلے بھی کئی ججز قتل ہوچکے ہیں۔ جنوری 2000ء میں بلوچستان ہائی کورٹ کے سینیئر جج جسٹس نواز مری کو کوئٹہ میں نامعلوم افراد نے قتل کردیا تھا۔
فروری 2007ء میں کوئٹہ کے ڈسٹرکٹ کورٹ کے کمرہ عدالت میں خودکش حملے میں ایک سینیئر سول جج عبدالواحد درانی اور سات وکلاء سمیت 15 افراد ہلاک  ہوئے تھے۔
اگست 2012ء میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ذوالفقار نقوی کو کوئٹہ میں محافظ اور ڈرائیور سمیت قتل کیا گیا۔
نومبر 2014ء میں انسداد دہشتگردی عدالت کوئٹہ کے جج (موجودہ جج ہائی کورٹ) نذیر احمد لانگو کی گاڑی پر بم حملے میں ایک شخص ہلاک اور دو محافظوں سمیت 30 سے زائد زخمی ہوئے تھے تاہم وہ محفوظ رہے۔
اگست 2016ء میں وفاقی شرعی عدالت کے جج ملک ظہور احمد شاہوانی بھی کوئٹہ کے زرغون روڈ پر ایک بم حملے میں بال بال بچ گئے تھے۔

محمد نور مسکانزئی کون تھے؟

بلوچستان ہائی کورٹ کی ویب سائٹ اور اہلخانہ کے مطابق  جسٹس محمد نور مسکانزئی یکم ستمبر1956 کو خاران کے علاقے کنری میں پیدا ہوئے۔
محمد نور مسکانزئی نے 1980ء میں یونیورسٹی لاء کالج کوئٹہ سے وکالت کی ڈگری لی اور 1981ء میں باقاعدہ وکالت کا آغاز کیا۔
بحیثیت وکیل جسٹس محمد نور مسکانزئی نے بطور سپیشل پراسیکیوٹر کام کیا اور کئی محکموں کے قانونی مشیر رہے۔ انہوں نے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان  اور بلوچستان بار کونسل کے وائس چیئرمین اور چیئرمین ایگزیکٹیو کمیٹی کی حثیت سے فرائض انجام دیے۔
محمد نور مسکانزئی اپنے قتل سے چند ماہ قبل مئی 2022ء میں فیڈرل شریعت کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے سے سبکدوش ہوئے تھے۔ وہ اس عہدے پر تین سالوں تک فائز رہے۔
چیف جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ کی حیثیت سے وہ سود کے خلاف تاریخی فیصلہ دینے والے تین رکنی بنچ کے سربراہ تھے۔
اس بنچ نے رواں سال اپریل میں ملک میں رائج سودی نظام کے خلاف درخواستوں پر 19 سالوں بعد فیصلہ دیا۔ بنچ نے سود کو غیر شرعی قرار دیتے ہوئے حکومت کو پانچ سالوں کے اندر معاشی نظام کو سود سے پاک کرنے کی ہدایت کی تھی۔
محمد نور مسکانزئی دسمبر 2014ء سے اگست 2018ء تک بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی رہے۔ وہ ستمبر 2009ء میں بلوچستان ہائی کورٹ کے ایڈیشنل جج اورمئی 2011ء میں مستقل جج مقرر ہوئے تھے۔
جسٹس محمد نور مسکان زئی خاران میں تحصیل ناظم بھی رہے۔

تعلیم کے لیے خدمات:

محمد نور مسکانزئی کے بیٹے گل خان مسکانزئی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان کے والد نے اپنے آبائی ضلع اور بلوچستان میں تعلیم کے فروغ کے لیےاہم کردار ادا کیا۔
گل خان مسکانزئی کا کہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس بلوچستان نے خاران میں تین پبلک لائبریریز کی بنیاد رکھی تھی اور ان کے لیے ذاتی زمین وقف کی۔ اس کے علاوہ خاران اور مستونگ میں یونیورسٹی سب کیمپس، انٹر کالج، یتیم بچوں کے لیے دار الاحساس ادارہ قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

شیئر: