Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گائے کا شناختی کارڈ

معاشرے کے کمزور طبقوں کو فائدہ پہنچا ہو یا نہیںلیکن مویشیوں کے’’ اچھے دن‘‘ ضرور آگئے
* * *معصوم مرادآبادی* * *
ملک میں اقتدار کی تبدیلی کا کوئی فائدہ سماج کے کمزور طبقوں کو پہنچا ہو یا نہیں اتنا ضرور ہے کہ اب ملک میں ان مویشیوں کے’ اچھے دن‘ آگئے ہیں جو دردر کی ٹھوکریں کھایاکرتے تھے اور جنہیں ہر کوئی دھتکار دیا کرتا تھا۔ ان مویشیوں میں سب سے زیادہ اہمیت اس گائے کو حاصل ہوگئی ہے جو ہندو مذہب میں ’ماں‘ کا درجہ رکھتی ہے۔ گایوں کی بڑھتی ہوئی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ حکومت اب انہیں ایک ایسا شناختی کارڈ جاری کرنیوالی ہے جیسا کہ ملک کے ہر باشندے کو جاری کیاجاتا ہے۔ اس سلسلے میں مرکزی حکومت نے ایک ایسی کمیٹی کی رپورٹ سپریم کورٹ کے سپرد کی ہے جس نے گائے جیسے مویشیوں کی اسمگلنگ روکنے کیلئے ملک بھر میں آدھار کارڈ جیسی اسکیم نافذ کرنے کی سفارش کی ہے۔ اسکے ذریعے گایوں پر نگاہ رکھی جاسکے گی اور انہیں تلاش کیاجاسکے گا۔ اس یوآئی ڈی نمبر میں مویشیوں کی عمر ، رنگ اور جنس وغیرہ کی معلومات محفوظ ہوگی۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ جب سے مرکز میں وزیراعظم نریندرمودی کی قیادت میں بی جے پی کی سرکار بنی ہے تب سے گائے مسلسل شہ سرخیوں میں ہے۔ کبھی یہ گائے گئو رکشکوں کی غنڈہ گردی اور مسلمانوں پر جان لیوا حملوں کے حوالے سے سرخیاں بٹورتی ہے تو کبھی اسکی گونج پارلیمنٹ میں سنائی دیتی ہے۔ حال ہی میں بی جے پی ممبرپارلیمنٹ سبرامنیم سوامی نے راجیہ سبھا میں ایک ایسا مسودہ قانون پیش کیا تھا جس میں گائے ذبح کرنیوالوں کو سزائے موت دینے کی تجویز تھی۔ بی جے پی کے اقتدار والی بعض ریاستوں گجرات ، مدھیہ پردیش اور راجستھان وغیرہ میں گائے ذبح کرنیوالوں کو عمرقید کی سزا دیئے جانے کا قانون منظور ہوچکا ہے۔ پچھلے دنوں راجستھان کے الور ضلع میں دودھ کے ایک تاجر پہلو خان کو گایوں کا اسمگلر قرار دیکر درندگی اور بربریت کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ حال ہی میں راجدھانی دہلی میں بھینسوں کو ہریانہ سے دہلی لارہے3 مسلم نوجوانوں کو گائے کا اسمگلر قرار دیکر بری طرح لہو لہان کردیاگیا ہے۔
یہ کارنامہ مرکزی وزیر مینکا گاندھی کی جانوروں کے تحفظ سے متعلق تنظیم کے کارکنوں نے فخریہ طورپر انجام دیا ہے۔ غرض یہ کہ پورے ملک میں مویشیوں کے تحفظ کے نام پر بے قصور اور نہتے مسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومت بظاہر سب کے جان ومال کے تحفظ کی بات کرتی ہے لیکن اس نے اُن نام نہاد گئو رکشکوں کیخلاف کسی ٹھوس کارروائی کا عندیہ نہیں دیا جو آئے دن مسلمانوں کے جان ومال سے کھلواڑ کررہے ہیں۔ گایوں کو شناختی کارڈ جاری کرنے کی اسکیم پر مزید تبصرہ کرنے سے پہلے ہم آپ کو بتادیں کہ پچھلے دنوں گائے کے تحفظ کی تحریک سے وابستہ ایک تنظیم نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ گائے میں چونکہ 90فیصد انسانی صفات پائی جاتی ہیں لہٰذا اسے بھی معاشرے میں انسانوں جیسے حقوق دیئے جانے چاہئیں اور گائے کو ذبح کرنے والوں کیخلاف وہی قانونی کارروائی عمل میں آنی چاہئے جو قتل کے ملزمان کے خلاف عمل میں آتی ہے لیکن یہاں تو گائے کے محافظوں نے دوقدم آگے بڑھ کر کارروائی شروع کررکھی ہے یعنی کسی انسان کے قاتل کو کیفرکردار تک پہنچانے کیلئے باقاعدہ قانونی کارروائی اور عدالتی عمل سے گزرنا پڑتا ہے لیکن گائے کا معاملہ یہ ہے کہ اسے ذبح کرنا تو دور محض اس کی اسمگلنگ کا جھوٹا الزام عائد کرکے کسی کو بھی موت کے گھاٹ اتارا جاسکتا ہے۔ اس بدترین جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف قتل کا مقدمہ بھی درج نہیںہوتا بلکہ سارا قصور مرنے والے کا ہی نکل آتاہے۔ جیسا کہ پہلو خان کے معاملے میں ہوا ہے۔ الور کے بی جے پی ممبراسمبلی گیان دیو آہوجا نے یہ کہہ کر پہلو خان کے قتل کو حق بہ جانب قرار دیا ہے کہ وہ گائے کا اسمگلر تھا اور اسے اپنے جرم کی سزا مل گئی ہے۔ آہوجا نے جئے پور میں کہاکہ ’’مجھے پہلو خان کی موت پر کوئی افسوس نہیں کیونکہ جو گایوں کے اسمگلر ہیں ، گایوں کے قاتل ہیں ایسے مجرموں کا یہی حشر ہوتا رہا ہے، ہوتا رہے گا۔ ‘‘ یہی سوچ دراصل ملک میں لاقانونیت اور نراج کو فروغ دے رہی ہے۔
جب انسانوں کے مقابلے میں مویشیوں کو اہمیت دی جانے لگے گی اور مویشیوں کی حفاظت کے نام پر بے گناہ انسانوں کا خون جائز ٹھہرایاجائے گا تو پھر اس ملک کو تباہی سے بچانا مشکل ہوگا۔ حکومت کا حال یہ ہے کہ وہ گئو رکشکوں کی درندگی اور بربریت کو روکنے کیلئے قانون کو مؤثر طورپر نافذ کرنے کی بجائے گائے اور اس کی نسل کے تحفظ کو فوقیت دے رہی ہے اور اس کام کیلئے نت نئے قانون بنائے جارہے ہیں۔ گایوں کو آدھارکارڈ (شناختی کارڈ) جاری کرنے کی اسکیم اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ہندوستان سے بنگلہ دیش میں ہورہی گایوں کی اسمگلنگ رکوانے کیلئے اکھل بھارتیہ کرشی گئو سیوا سنگھ نے سپریم کورٹ میں جو عرضی داخل کررکھی ہے، اس پر داخلہ سیکریٹری کی قیادت میں تشکیل شدہ کمیٹی کی رپورٹ مرکز نے سپریم کورٹ کو سونپی ہے۔ اس کمیٹی نے یہ سفارش کی ہے کہ ملک میں گائے اور گائے کی نسل کو آدھار کارڈ کی طرح خاص شناختی نمبر (یوآئی ڈی) دینا چاہئے۔ اس سے انہیں ڈھونڈنا آسان ہوگا۔ یو آئی ڈی کو گائے کے کان، سینگ یا گلے میں لٹکاسکتے ہیں۔ یو آئی ڈی نمبر میں ہر جانور کی عمر ، جنس ، لوکیشن ، رنگ ، نسل، لمبائی اور جانوروں پر موجود خاص نشان کی معلومات ہونی چاہئے۔ گائے اور گائے کی نسل کیلئے ملک بھر میں شناختی کارڈ لازمی ہونا چاہئے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ دودھ دینے والی گایوں کو یوآئی ڈی نمبر دینے کیلئے تقریباً ایک لاکھ تکنیکی ماہرین کو 50 ہزار دستی کمپیوٹر دے کر میدان میں اتاراگیا ہے۔ اس کام کیلئے 148کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا ہے۔ ملک میں تقریباً 9کروڑ دودھ دینے والی گایوں اور بھینسوں کو آدھار کی طرز پر 12نمبروں کا یوآئی ڈی نمبر (شناختی کارڈ) دینے کا کام4ماہ پہلے ہی شروع ہوچکا ہے۔

شیئر: