سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ عمران خان پارلیمنٹ سے نہ جاتے تو نیب قانون میں خامیوں کی نشاندہی ہوسکتی تھی۔
پیر کو سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔ بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ بھی شامل ہیں۔
درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا عدالت بین الاقوامی کنونشنز کے مطابق قانون سازی کی ہدایت کر سکتی ہے؟ اگر عدالت ہدایات دے بھی تو پارلیمان کس حد تک ان کی پابند ہوگی؟
مزید پڑھیں
-
شہباز شریف، یوسف گیلانی سمیت اہم شخصیات کیخلاف نیب کیسز واپسNode ID: 701726
وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ عدالت کئی مقدمات میں پارلیمان کو ہدایات جاری کر چکی ہے۔ عدالت نے کئی قوانین کی تشریح بین الاقوامی کنونشنز کے تناظر میں کی ہے۔
چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ عالمی کنونشن میں نجی افراد کی کرپشن کا بھی تذکرہ ہے۔ نجی شخصیات میں کنسلٹنٹ، سپلائر اور ٹھیکیدار بھی ہوسکتے ہیں۔ نجی افراد اور کمپنیاں حکومت کو غلط رپورٹس بھی دے سکتی ہیں۔ وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب بینک کیس میں بھی نجی افراد پر نو ارب کی کرپشن کا الزام تھا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’کیا کسی دوسرے ملک نے عالمی کنونشن کے مطابق کرپشن قانون بنایا ہے؟ وکیل نے بتایا کہ کسی دوسرے ملک کے کرپشن قانون کا جائزہ نہیں لیا۔ عالمی کنونشن میں درج جرائم پاکستانی قانون میں شامل تھے۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’دنیا نے کرپشن کے خلاف عالمی کنونشن 2003 میں جاری کیا۔ مثبت چیز یہ ہے کہ پاکستان میں کرپشن کے خلاف قانون 1947 سے ہے۔ جنسی حراسگی سمیت ہمارے کئی قوانین میں خامیاں موجود ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا کوئی کنونشن مقامی قانون میں خامیوں کو دور کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے؟ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ کنونشن کے قوانین مقامی قانون میں شامل تھے، لیکن ان ترامیم کے ذریعے ڈی ٹریک کر دیا گیا۔ کیا ترامیم سے پہلے قانون کنونشن سے مکمل مطابقت رکھتا تھا۔
