پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں ان دنوں شہریوں کو ایسے گینگ کا سامنا ہے جو بجلی کے میٹر چوری کرنے کے بعد زبردستی پیسے وصول کرتے ہیں۔ پولیس اس گینگ کو ٹریس کرنے میں ابھی تک ناکام دکھائی دیتی ہے۔
مزید پڑھیں
-
لاہور میں بینک سے رقم نکوالنے والے ہی ڈاکوؤں کے نشانے پر کیوں؟Node ID: 706631
-
صوابی میں دو من لہسن چوری، کیمروں کی مدد سے دو ملزم گرفتارNode ID: 711201
نوین احمد لاہور کے علاقے نیو مسلم ٹاؤن کے رہائشی ہیں۔ منگل کو علی الصبح جب ان کے گھر کی بجلی اچانک بند ہوئی تو انہوں نے اسے غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ سمجھا۔ جب ایک گھنٹہ گزرنے کے بعد بھی بجلی نہ آئی تو انہیں تشویش لاحق ہوئی۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’میں گھر سے باہر نکلا کہ چیک کروں کہ کہیں بجلی ٹرانسفارمر وغیرہ خراب ہونے کی وجہ سے تو بند نہیں ہوئی۔ تو دیکھا کہ سٹریٹ لائٹس ابھی روشن تھیں۔‘
نوین بتاتے ہیں کہ ان کی نظر اپنے گھر کے میٹر پر پڑی جو سامنے کھمبے پر لگا ہوا تھا تو وہاں میٹر سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔ ’مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی کہ میٹر کو کیا ہوا ہے۔ میں نے بجلی کا بل تو مہینے کے شروع میں ہی جمع کروا دیا تھا۔ ابھی میں دیکھ ہی رہا تھا کہ میرے ہمسائے بھی باہر نکل آئے۔ ان کی بھی بجلی بند تھی۔ دیکھا تو ان کا بھی میٹر غائب تھا۔‘
نوین اور ان کے ہمسائے نے جب کھمبے کا بغور جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ میٹر اور بجلی کے تار کاٹ کر اتارے گئے ہیں۔ اور کٹی ہوئی تاروں کے ساتھ ایک گتے پر واٹس ایپ نمبر لکھا تھا۔
کچھ گھنٹوں کے بعد اس نمبر پر جب رابطہ ممکن ہوا تو متاثرہ فریقین کو واٹس ایپ کرنے والے شخص نے کہا کہ فی میٹر 15000 روپے ایک ایزی پیسہ نمبر پر بھیجیں آپ کے میٹر آپ کو واپس مل جائیں گے۔
یہ وہ وقت تھا جب نوین نے پھر پولیس کو اس واقعے سے آگاہ کر دیا اور ایف آئی آر کے لیے تھانے میں درخواست جمع کروا دی۔

نیو مسلم ٹاؤن کے علاقے میں اس سے ملتے جلتے چار واقعات پہلے بھی ہو چکے ہیں۔ ایک شہری ساجد علی نے بتایا کہ ’میرا جب میٹر چوری ہوا تو وہ رات کا وقت تھا۔ مجھے بھی اپنے میٹر کی جگہ ایک واٹس ایپ نمبر کاغذ پر لٹکا ملا۔ کچھ دیر بعد رابطہ کیا تو مجھے کہا گیا کہ 10000 ایزی پیسہ کروا دو۔ پہلے میں نے پولیس میں درخواست دی۔ اس کے بعد لیسکو کو نیا میٹر لگوانے کے لیے ایک اور درخواست دی۔ لیکن چونکہ ابھی میرا بجلی کا بل ادا نہیں تھا۔ جو کہ کافی زیادہ تھا اس لیے میں نے چوروں کو پیسے دے کر ہی میٹر لینے میں عافیت سمجھی۔‘
ساجد کہتے ہیں کہ انہوں نے واٹس ایپ پر دیے گئے ایک دوسرے نمبر پر پیسے بھجوا دیے۔
’اس کے بعد مجھے بتایا گیا کہ میرے گھر کے قریب ہی نہر کنارے ایک جگہ پر میٹر زمین کو تھوڑا سا کھودنے سے مل جائے گا۔ مجھے جگہ کی نشاندہی بھی کی گئی۔ میں وہاں گیا تو میٹر مل گیا۔ جس کو میں نے دوبارہ نصب کروا لیا۔ پولیس کو درخواست دی تھی لیکن ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔ نہ ہی اس حوالے سے پولیس نے ان لوگوں کو ٹریس کیا ہے۔
اردو نیوز نے جب اس حوالے سے اس علاقے کے ایس ایچ او محمد ریحان سے رابطہ کیا تو انہوں نے انکشاف کیا کہ اس طرح کے واقعات پورے شہر میں ہو رہے ہیں۔
’میرے علاقے میں تو صرف تین چار واقعات سامنے آئے، شہر بھر میں درجنوں ایسے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں۔ لیکن ان افراد کو پکڑنا اس لیے مشکل ہے کیونکہ اس میں جو واٹس ایپ نمبر استعمال ہو رہے ہیں یا دوسرے نمبر استعمال ہو رہے ہیں وہ آپ سمجھ لیں کہ ڈسپوزایبل ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ایک بار نمبر استعمال ہونے کے بعد وہ نمبر دوبارہ استعمال نہیں ہوتا۔ ’اس کے علاوہ یہ نمبر کسی کے نام پر رجسٹرڈ بھی نہیں ہوتے نہ ان پر کوئی موبائل سروس چلتی ہے۔ صرف واٹس ایپ چلتا ہے۔ ایف آئی اے اس حوالے سے موثر تحقیقات کر سکتی ہے۔ کیونکہ ہمیں لگتا ہے کہ یہ نمبر غیر قانونی ایکسچینجز یا انٹرنیٹ سے لیے جاتے ہیں۔ پولیس کے پاس ایسا کوئی ذریعہ یا ٹیکنالوجی نہیں کہ ان کو ٹریس کیا جا سکے۔‘
