Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈی جی آئی ایس آئی کی غیر معمولی پریس کانفرنس، ’جھوٹ کا جواب دینا ضروری ہو گیا تھا‘

پاکستان کی حالیہ تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ اس کی مرکزی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی جو ملک کے تقریباً ہر معاملے کے پس پردہ رہتی ہے کے سربراہ نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا ہے اور ملک کی موجودہ سیاسی و سماجی صورتحال پر کھل کر بات کی ہے۔
ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے ایک سال پہلے جب اپنے عہدے کا چارج سنبھالا تھا تو اسی وقت ان کے بارے میں اطلاعات آئی تھیں کہ وہ پس منظر میں رہ کر کام کرنا پسند کرتے ہیں۔
ان کے پیش رو خبروں میں تو رہتے ہی تھے لیکن کئی ایک بار وہ کیمرے کے سامنے بھی آئے اور تقریبات میں بھی شرکت کی۔ بلکہ ایک بار تو انہوں نے افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد کابل میں میڈیا سے ’اتفاقی گفتگو‘ بھی کی۔
تاہم جنرل ندیم انجم  ڈی جی آئی ایس آئی کا چارج سنبھالنے کے بعد کبھی سامنے نہیں آئے۔ بلکہ یہاں تک اطلاعات آئیں کہ انہوں نے وزیراعظم اور دیگر اعلٰی عہدیداران سے سرکاری ملاقاتوں کی تصاویر جاری کرنے سے بھی منع کر دیا تھا کیوں کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کا چہرہ لوگوں کے سامنے آئے۔
اسی پس منظر میں جب انہوں نے جمعرات کے روز آئی ایس پی آر میں ہونے والی اور تمام ٹی وی چینلز پر براہ راست نشر ہونے والی پریس کانفرنس میں شرکت کی تو یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔
گزشتہ چند دہائیوں میں پاکستان افغانستان جنگ، ملک کے اندر دہشت گردی، انڈیا کے خلاف کشیدہ صورتحال اور سیاسی ہنگامی صورتحال کے کئی ادوار سے گزرا ہے لیکن آئی ایس آئی کے سربراہ نے کبھی اس طرح پریس کانفرنس سے براہ راست خطاب نہیں کیا اور سوالوں کے جوابات نہیں دیے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر اور آئی ایس آئی کے سربراہ نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ (فوٹو: سکرین گریب)

اور اس کا ذکر لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے بھی ان الفاظ میں کیا کہ ان کی پالیسی اور ان کے فرائض انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ منظر عام پر آئیں لیکن ملک و قوم کی خاطر وہ آج سامنے آکر بات کر رہے ہیں۔ کیونکہ بعض اوقات جھوٹ کو جھوٹ ثابت کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب انہیں یہ خدشہ محسوس ہوا کہ جھوٹ ملک میں فتنے اور فساد کا باعث بن رہا ہے تو انہوں نے منظر عام پر آ کر بات کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ جھوٹ کا جواب دینا ضروری ہو گیا تھا۔
اپنی گفتگو میں لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے کہا کہ ان کے سامنے آرمی چیف کو تاحیات توسیع کی پیشکش کی گئی تھی جس کو انہوں نے ٹھکرا دیا۔
انہوں نے کسی کا نام لیے بغیر یہ بھی کہا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آرمی چیف غدار ہے تو اس کو بار بار توسیع دینے کا کیوں کہتے ہیں؟ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آرمی چیف غدار ہیں تو آپ راتوں کو ان سے ملتے کیوں ہیں؟
ڈی جی آئی ایس آئی نے اس موقع پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’میر جعفر کہنا، میر صادق کہنا، غدار کہنا، نیوٹرل کہنا، جانور کہنا اس لیے نہیں ہے کہ میرے ادارے نے، میری ایجنسی نے، آرمی چیف نے غداری کی ہے۔ یہ اس لیے بھی نہیں ہے کہ انہوں نے کوئی غیر قانونی کام کیا ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ انہوں نے، ان کے ادارے نے غیر آئینی، غیر قانونی کام کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
ندیم انجم نے کہا کہ جنرل باجوہ نے اپنی ذات بھی قربان کی۔  ’آپ کو معلوم ہے کہ ان پر ان کے بچوں پر کتنی تنقید کی گئی۔
ایک اور سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل افتخار بابر نے کہا کہ انہوں نے خود کبھی نیوٹرل کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ ہمیشہ کہا ہے کہ ہم غیر سیاسی  ہیں اور اس پر انہیں جانور کہا جاتا ہے۔
’پاکستان کا آئین شریعت کے عین مطابق ہے۔ اس میں کسی کو کوئی شک نہیں ہے۔ پاکستان کا آئین اسلامی مملکت کا آئین ہے۔ اور اسی آئین میں یہ لکھا ہے کہ ادارے اپنا کردار اپنی آئینی حدود میں رہ کر ادا کریں گے، اور اسی آئین کے اوپر ہم حلف لیتے ہیں۔‘
ڈی جی آئی ایس آئی نے صحافیوں کے کئی سوالوں کے کھل کر اور واضح جواب دیے تاہم ایک موقع پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ بعض اوقات سچ کو خفیہ بھی رکھنا پڑتا ہے کیونکہ اس وقت بہت زیادہ سچ بتانا شر بن جاتا ہے۔
یہ پریس کانفرنس ایک تشویشناک ماحول کے پس منظر میں ہو رہی تھی اور دونوں فوجی افسران کے چہرے زیادہ تر سپاٹ رہے۔ تاہم ایک لمحہ ایسا بھی آیا جب ندیم انجم کے چہرے پر اس وقت خفیف سی مسکراہٹ پھیل گئی جب ایک صحافی نے ان کے طرز تکلم کو سراہا اور کہا کہ آپ اردو بہت اچھی بولتے ہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ارشد شریف کو تھریٹ الرٹ وزیراعلٰی خیبرپختونخوا کی ہدایت پر جاری کیا گیا۔ (فوٹو: فیس بک)

اگرچہ ڈی جی آئی ایس آئی نے آرمی چیف کی سیاستدانوں (عمران خان) سے ملاقاتوں کی تصدیق کی ہے اور مزید مذاکرات کے امکان کی بھی تردید نہیں کی لیکن فوج اور اس کی خفیہ ایجنسی کی طرف سے اس طرح کھل کر سامنے آنے سے پاکستان کا مستقبل قریب کا سیاسی منظر نامہ کافی ہنگامہ خیز نظر آ رہا ہے۔ 
عمران خان جمعے کو لاہور سے مارچ کا اعلان کر چکے ہیں جس کے دوران وہ پنجاب کے کئی بڑے شہروں میں جلوس لے کر جائیں گے اور ان کے قریبی دوست فیصل واوڈا انہیں اس مارچ سے اس بات پر خبردار کر رہے ہیں کہ ان کی معلومات کے مطابق اس پر حملے ہوسکتے ہیں اور لاشیں گر سکتی ہیں۔
معروف صحافی ارشد شریف کے قتل کا الزام مختلف گروہ بشمول سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر ڈال رہی ہیں اور ہر طرف سے اس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا جا رہا۔
یہ ساری صورتحال مختلف سٹیک ہولڈرز کی باہمی جنگ کی طوالت کی طرف اشارہ کر رہی ہے اور بظاہر یہ محسوس ہو رہا ہے کہ آنے والے دن اور ہفتے اس ملک میں مزید سیاسی بے چینی اور ہنگامہ خیزی لے کر آئیں گے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ جس طر ح ڈی جی آئی ایس آئی نے فوج  کے متعلق الزامات کا جواب دینے کے لیے کھل کر سامنے آ کر بات کرنے کا ایک تاریخی فیصلہ کیا، کیا اسی طرح ملک کے مقتدر حلقے تزویراتی، انتظامی، مفاہمتی اور اہم سیاسی فیصلے کر کے سامنے نظر آنے والے بحران کو ٹالنے کے لیے کوئی قدم اٹھائیں گے یا محاذ آرائی کی اس لہر میں غیر یقینی کا اضافہ ہوتا رہے گا۔

شیئر: