لبنان کا خلیل جبران جس نے فن سے مشرق و مغرب کو متحد کیا
لبنان کا خلیل جبران جس نے فن سے مشرق و مغرب کو متحد کیا
جمعرات 27 اکتوبر 2022 17:54
جبران کی پہلی مصوری 1898 میں کتاب کے سرورق کے طور پر استعمال ہوئی۔ فوٹو ٹوئٹر
خلیل جبران بلاشبہ مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی ثقافتی شخصیات میں سے ایک جو مصنف اور مصور دونوں شعبوں میں یکساں مقبولیت رکھتے تھے۔
عرب نیوز کے مطابق لبنان نژاد امریکی مصور، مصنف اور فلسفی اپنی 1923 میں نثری شاعری کی کتاب ' پیامبر' کے لیے مشہور ہیں اور یہ 1960 کی دہائی میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی شاعری کی کتاب بن گئی۔
خلیل جبران مشرق کی آواز جس نے مغرب تک رسائی حاصل کی۔ فوٹو انسائیکلوپیڈیا
خلیل جبران کی شعری تصنیف'پیامبر' کی اشاعت کے تقریباً ایک صدی بعد جبران کی مقبولیت نسل در نسل بڑھ رہی ہے اور انگریزی میں ان کی شاعری عوام میں مقبول ہوئی ہے۔
لبنان نژاد آسٹریلوی فلم ساز اور تحقیقی مورخ گلین کلیم حبیب کا کہنا ہے کہ خلیل جبران مشرق کی آواز تھی جنہوں نے آخر کار مغرب تک رسائی حاصل کی اور محسوس کیا کہ مغرب روحانیت کا بھوکا ہے۔
صرف اس وقت کی مدت پر ایک نظر ڈالیں تو بہت سارے عظیم مفکر، شاعر، ادیب اور فنکار تھے جوسب کے سب نیویارک میں جمع تھے۔
کلیم حبیب کہتے ہیں کہ جبران عرب ادب اور فن سے بھی بہت زیادہ متاثر تھے۔
خلیل جبران1883 میں ماؤنٹ لبنان کےعیسائی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ فوٹو ٹوئٹر
خلیل جبران 1883 میں ماؤنٹ لبنان کے قریب بشاری نامی گاؤں میں خلیل سعد جبران اور کمیلہ رحمہ کے ہاں پیدا ہوئے جو کہ دونوں مرونائی عیسائی تھے۔
جبران کی والدہ نے ان کی حساس اور فنکارانہ فطرت کی حوصلہ افزائی کی اور انہیں مائیکل اینجیلو کے آرٹ ورک پر مشتمل ایک کتاب تحفے میں دی جس نے ان میں فنکار اور فن کے لیے زندگی بھر کی محبت بھر دی۔
کئی برسوں کی غربت اور غیر یقینی صورتحال کے بعد کمیلا نے اپنے چار بچوں کو ساتھ لیا اور جبران کے والد کو لبنان میں ہی چھوڑ کر اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رہنے کے لیے بوسٹن چلی گئیں۔
کمیلا اور ان کے بچے بوسٹن کے ساؤتھ اینڈ میں آباد ہوئے، اس وقت امریکہ میں دوسری سب سے بڑی شام اورلبنان نژاد امریکی کمیونٹی تھی۔
میکسیکن اداکارہ نے جبران کے کام سے متاثر ہوکر اینی میٹڈ فلم بنائی ہے۔ فوٹو عرب نیوز
جبران ابھی ابتدائی سکول میں ہی ہجرت کر کے آنے والے طالب علموں کے ساتھ مخصوص جماعت میں تھے کہ اساتذہ نے جلد ہی ان کی فنکارانہ صلاحیت کو بھانپ لیا اور قریبی آرٹ سکول ڈینیسن ہاؤس میں بھی ان کا داخلہ کروا دیا ۔
اسی دوران خلیل جبران کا تعارف بوسٹن کے مایہ ناز مصور اور ناشر فریڈ ہالینڈ ڈے سے ہوا جنہوں نے جبران کی صلاحیتوں کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔
اس حوصلہ افزائی کے بعد جبران کی پہلی مصوری کے نمونے کو 1898 میں ایک کتاب کی اشاعت کے لیے سرورق کے طور پر استعمال کیا گیا۔
خلیل جبران کے فن پاروں کی پہلی نمائش 1904 میں بوسٹن کے ڈے سٹوڈیو میں ہوئی جہاں ان کی ملاقات ایک تعلیم ادارے کی سربراہ میری الزبتھ باسکل سے ہوئی جن سے دوستی تادم آخر قائم رہی۔
جبران کی والدہ بچوں سمیت لبنان چھوڑ کر رشتہ داروں کے ہاں بوسٹن چلی گئیں۔ فوٹو ٹوئٹر
الزبتھ باسکل جوعمر میں ان سے دس سال بڑی تھیں اور اس دوستی کا اثر جبران کے فن پاروں میں بھی نظر آتا ہے۔
خلیل جبران نے1931 میں نیویارک میں ہی وفات پائی اور اپنی تمام تصانیف اور فن پارے میری باسکل کے نام وصیت کئے جس میں باسکل کو اپنے اور جبران کے بیچ 23 سال کی خط و کتابت بھی ملی جس کے بارے میں انہوں نے سوچا کہ جلا دیا جائے تا ہم تاریخی اہمیت کے پیش نظر انہیں محفوظ کر دیا گیا۔
لبنان میں خلیل جبران سے موسوم میوزیم قائم ہے اور 2014 میں ایک میکسیکن اداکارہ سلمیٰ ہائیک جن کے والد لبنان نژاد ہیں انہوں نے جبران کے کام سے متاثر ہوتے ہوئے'خلیل جبران دی پیامبر' کے نام سے ایک اینی میٹڈ فلم بھی بنائی ہے۔