Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا‘‘

ہمیں چاہئے کہ ہم ترقی کی جانب بڑھیں لیکن اپنی اقدار اور ورثے کی اہمیت کم نہ ہونے دیں
اُمِ مزمل۔جدہ
وہ غالب کے اس شعر پر غور کررہی تھی کہ:
 نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
جسکی تشریح غالب نے خود بخود ہندی میں کی ہے۔ ایران میں ایک قدیم رسم تھی کہ فریادی کا غذی لباس زیب تن کرکے بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوتا اور اپنی عرضداشت پیش کرتا تھا۔ فریاد کرنے والا اپنے کاغذی لباس کی وجہ سے پہچانا جاتا تھا کہ یہ فریادی ہے۔ اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے آجکل کے زمانے میں یہی کیا جاسکتا ہے کہ ان ذہین لوگوں کو اس بات کی طرف متوجہ کیا جائے کہ جدیدیت بہترین چیز ہے ۔ہر سہولت لوگوں تک پہنچائی جانی چاہئے لیکن اسکا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اپنے ثقافتی ورثوں سے اعراض کیا جائے۔ ہمیں جان لینا چاہئے کہ تہذیب و تمدن انسانی روایات کو قائم رکھنے کیلئے ضروری ہے ۔ چند طالبات وہاں پہنچیں اور اپنے قومی رہنماؤں کے بارے میں گفت و شنید کرنے لگیں۔ ایک نے کہا، پرانے زمانے کے حکمراں ہمیشہ اسلامی تعمیرات کو پسند کرتے تھے اور اس طریقے سے جدیدیت کا عمل دخل ہوتا اور اسلامی اقدار کا دور دورہ بھی۔
اپنی ثقافت کو قائم رکھنا اور ہزاروں سال پرانی عمارتوں کی دیکھ بھال اسکے شایان شان کرنی چاہئے تاکہ آنے والی نسلیں یہ جان سکیں کہ ہمارے آباء واجداد ترقی و تہذیب میں کسی سے کم نہ تھے۔ دوسری طالبہ نے کہا کہ بالکل صحیح بات ہے، ہمیں چاہئے کہ ہم ترقی کی جانب بڑھیں لیکن اپنی اقدار اور ورثے کی اہمیت کم نہ ہونے دیں۔ تیسری طالبہ نے اپنانقطہ نظر سمجھاتے ہوئے کہا کہ پوری ریاست صرف ایک فرد کی ذہانت اور حکم سے نہیں چلتی بلکہ ہر ایک کو اپنے جیسے لوگوں کی مشاورت کی ضرورت پڑتی ہے ۔ ضروری ہے کہ جو لوگ بڑے عہدوں پر تعینات ہوں انہیں چاہئے کہ اپنی ذہانت اور صلاحیت سے اپنے لوگوں کو نوازیں لیکن ہمارے یہاں مسئلہ یہ ہے کہ جن کے پاس عہدہ ہے ،ان کے پاس صلاحیت نہیں اور جنہیں ذہانت ملی ہے، ان سے عہدہ دور ہے اور جب اتفاقاً تعلیم یافتہ ، ذہین لوگوں کو عہدہ بھی بڑا مل جائے تو سستی و کاہلی انکے کام میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ جو قوم یہ چاہتی ہے کہ ترقی میں دوسری قومو ں سے آگے بڑھ جائے اسے سستی اور کاہلی سے دور رہنا چاہئے۔ کفایت شعاری کو اپنا لینا چاہئے اور مذہب کے قوانین کو اپنے اوپر لاگو کرلینا چاہئے۔ قریب ہی موجود انکی استانی صاحبہ نے کہا جب لوگ مذہب کے قریب ہونگے تو اپنے آپ کو درست راستے پر چلنے والا بنائیں گے کیونکہ فہم و ادراک مالک حقیقی نے ہر ایک فرد کو عطا فرمایا ہے۔ ضروری ہے کہ اسکا درست استعمال بھی کیا جائے۔
جب لوگ دین کے قریب ہونگے تو ایمانداری سے اپنے فرائض کی انجام دہی کو یقینی بنانے کی فکر بھی کریں گے۔ اس میں چھوٹی بڑی ہر بات شامل ہے۔ جس کی جو ذمہ داری ہے اسکی اہمیت کو جاننا بھی ضروری ہے۔ ترقی اور جدیدیت اچھی بات ہے لیکن اس وقت تک جب اس سے ہماری قومیت یا ورثے کو نیچا نہ دکھایا جائے۔ یہ ایک انسان کی بات نہیں، اجتماعی شعور کی بات ہے۔ لوگوں کو اچھے کاموں میں ایک دوسرے کا مددگار بننا چاہئے ۔یہ بھی ایسی ہی بات ہے کہ درست بات کی طرف توجہ دلائی جائے۔

شیئر: