صحافی ارشد شریف کی والدہ کا چیف جسٹس کو ’پہلا اور آخری خط‘
صحافی ارشد شریف کی والدہ کا کہنا تھا کہ ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن بنانا حکومت کی بدنیتی ظاہر کرتا ہے۔( فوٹو: اے ایف پی)
کینیا میں قتل ہونے والے پاکستانی صحافی اور اینکر ارشد شریف کے والدہ نے چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کو خط لکھ کر اعلٰی سطح کا جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ میرا پہلا اور آخری خط ہے۔ اگر میری استدعا قبول نہ کی گئی تو میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کر دوں گی۔‘
ارشد شریف کی والدہ رفعت آرا علوی نے اپنے خط میں ارشد شریف کے ملک چھوڑنے کی وجوہات، دبئی سے کینیا منتقل ہونے اور ان کے قتل کے بعد کینیا کی پولیس کے بدلتے بیانات اور حکومت کی کی جانب سے اب تک کیے گئے اقدامات کی روشنی میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی ہے کہ میرے بیٹے کے کیس کو متنازع ہونے سے بچایا جائے۔
خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ارشد شریف کے اہل خانہ جن میں والدہ، اہلیہ اور پانچ بچے شامل ہیں، کو انصاف فراہم کیا جائے اور ارشد شریف کے کیس کو سیاسی منافقت اور بد دیانتی سے بچایا جائے۔
خط میں کہا گیا کہ ارشد شریف دوبئی پہنچنے تو تسلی تھی کہ اب خطرے سے باہر ہیں۔ ’وہ کینیا میں دو ماہ سے مقیم تھے جہاں میرے بیٹے کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ ارشد شریف نے 12 مئی کو بذریعہ خط آپ کو خطرات سے آگاہ کیا تھا، خط میں آپ کو غداری کے بے بنیاد مقدمات سے آگاہ کیا تھا۔‘
والدہ ارشد شریف نے لکھا کہ ان کے خلاف متعدد مقدمات بنائے گئے جن میں غداری کے مقدمات بھی شامل تھے۔ ’اس وجہ سے ان کی زندگی کو خطرات تھے۔ ان خطرات کی وجہ سے ارشد شریف کو ملک سے باہر پناہ لینی پڑی، ارشد شریف کی بیوہ اور یتیم بچوں کو انصاف کے سوا کچھ نہیں چاہیے۔‘
والدہ کا کہنا ہے کہ کینیا کی پولیس نے تین سے چار مرتبہ اپنا موقف تبدیل کیا ہے۔ تحقیقاتی ٹیم کی روانگی سے قبل وفاقی وزرا نے من گھڑت کہانیاں بنائیں جن کی وجہ سے شکوک و شبہات نے جنم لیا۔ یہ بیانات میڈیا کے ریکارڈ پر موجود ہیں۔
انھوں نے مزید لکھا کہ مجھے انصاف کے علاوہ کچھ نہیں چاہیے۔ ’یہ میرا پہلا اور آخری خط ہے اس کے بعد اپنا کیس اللہ کی عدالت میں رکھ دوں گی۔ توقع ہے میرا خط ہلاک ہونے والے بیٹے (ارشد شریف) کے خط کی طرح سردخانے کی نظر نہیں ہو گا۔‘
انھوں نے خط میں مزید لکھا کہ وزیراعظم نے اپنے بیان میں جوڈیشل کمیشن بنانے کا اعلان کیا تھا۔
صحافی ارشد شریف کی والدہ کا کہنا تھا کہ ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن بنانا حکومت کی بدنیتی ظاہر کرتا ہے۔
انھوں نے خط میں یہ بھی کہا کہ ارشد شریف کے ورثا اور صحافی برادری کا غم و غصہ فراہمی انصاف سے ہی کم ہو گا۔