سپریم کورٹ نے 25 مئی کے واقعات پر عمران خان سے وضاحت مانگ لی
سپریم کورٹ نے 25 مئی کے واقعات پر عمران خان سے وضاحت مانگ لی
بدھ 2 نومبر 2022 9:05
بشیر چوہدری -اردو نیوز، اسلام آباد
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ فوٹو: اے ایف پی
سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی جانب سے توہین عدالت کی دائر درخواست پر سابق وزیراعظم عمران خان کو وضاحت کا ایک اور موقع دیتے ہوئے جواب اُن کے دستخطوں سے جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ تمام رپورٹس، شواہد اور مواد کے مطابق تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان 25 مئی کے واقعات کے ذمہ دار ہیں، اس کے باوجود ہم ان کو وضاحت کا موقع دے رہے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی۔
پی ٹی آئی وکلا بابر اعوان اور فیصل چوہدری کی طرف سے صدر سپریم کورٹ بار احسن بھون پیش ہوئے اور کہا کہ بابر اعوان اور فیصل چوہدری نے جواب جمع کرادیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دونوں وکلاء کے جواب بظاہر مناسب ہیں جن کا جائزہ بعد میں لیں گے، پہلے حکومتی وکیل کا موقف سن لیتے ہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے بتایا کہ عمران خان نے کسی بھی یقین دہانی اور عدالتی حکم سے بھی لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔ حالانکہ عمران خان کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی تھی، 25 مئی کو پہلا عدالتی حکم دن گیارہ بجے دیا گیا دوسرا شام 6 بجے ہوا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’دونوں احکامات کے درمیان کا وقت ہدایت لینے کے لیے ہی تھا لیکن عدالت کو نہیں بتایا گیا تھا کہ ہدایت کس سے لی گئی تھیں۔ اگر کسی سے بات نہیں ہوئی تھی تو عدالت کو کیوں نہیں بتایا گیا؟ اس بات کی وضاحت تو دینی ہی پڑے گی۔ عدالت نے بابر اعوان اور فیصل چوہدری پر اعتماد کیا تھا، دونوں وکلاء نے کبھی نہیں کہا انہیں ہدایات نہیں ملی۔ عمران خان کو عدالتی حکم کا کیسے علم ہوا، یقین دہانی پی ٹی آئی کی اعلٰی قیادت کی جانب سے کرائی گئی تھی، پی ٹی آئی کی اعلی قیادت کا آغاز عمران خان سے ہوتا ہے۔‘
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ ’پی ٹی آئی نے 2014 میں بھی این او سی کی خلاف ورزی کی تھی، سپریم کورٹ میں عمران خان پر شرمناک کہنے پر توہین عدالت کا کیس چلا۔ دو مرتبہ عمران خان الیکشن کمیشن سے بھی معافی مانگ چکے ہیں۔ عدالت کئی مرتبہ تحمل کا مظاہرہ کر چکی ہے۔‘
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ کیس ماضی کے مقدمات سے مختلف ہے۔
بابر اعوان اور فیصل چوہدری کے وکیل احسن بھون نے کہا کہ عدالت نے حکومت کو وکلاء کی عمران خان سے ملاقات کرانے کا حکم دیا، لیکن حکومت نے وکلاء کی عمران خان سے ملاقات کا بندوبست نہیں کیا۔
وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ عمران خان سفر میں ہوں تو جیمر ساتھ ہوتے ہیں۔ میرا اسد عمر اور بابر اعوان سے رابطہ ہوا تو انہیں عدالتی کارروائی سے آگاہ کیا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا اسد عمر رابطے کے وقت ریلی میں نہیں تھے تصاویر کے مطابق تو اسد عمر ریلی میں تھے، جیمرز تھے تو اسد عمر سے رابطہ کیسے ہوا؟
فیصل چوہدری نے کہا کہ اسد عمر سے رابطے کے وقت عدالت کا کوئی حکم جاری نہیں ہوا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’عدالتی حکم میڈیا پر بھی نشر کیا گیا تھا، عدالت نے 25 مئی کو توازن پیدا کرنے کی کوشش کی تھی، اسد عمر سے دوسری بار بھی رابطہ ہو سکتا تھا لیکن نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ 26 مئی کے حکم میں عدالت نے کہا کہ اعتماد کو ٹھیس پہنچائی گئی۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’اگر رابطہ نہیں ہو سکا تو عدالت کو کیوں نہیں بتایا گیا، عدالت نے پی ٹی آئی کی یقین دہانی پر حکومت کو ہدایت دی تھی۔ وکلاء کو ایچ نائن گراونڈ میں موجود ہونا چاہیے تھا۔ رات دس بجے تک تو آگ لگ چکی تھی، کیا عدالت اب عمران خان سے پوچھے کہ کیا ہوا تھا؟
جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ 25 مئی کو دوران سماعت وکلاء نے کبھی نہیں کہا تھا کہ قیادت سے رابطہ نہیں ہوا تھا۔ واضح یقین دہانی پر ہی عدالت نے وکلاء پر اعتماد کیا تھا۔ جلسے کے مقام کے حوالے سے صرف ایچ نائن گراؤنڈ کا کہا تھا۔ تحریک انصاف نے عدالتی حکم کا غلط استعمال کیا۔ عدالت نے تو پی ٹی آئی قیادت اور کارکنوں کو تحفظ دیا تھا، عدالتی حکم پر حکومت نے رکاوٹیں ہٹا دی تھیں۔
احسن بھون نے کہا کہ حکومت نے وکلا کی عمران خان سے ملاقات کے لیے اقدامات نہیں کیے، ان کے پاس ہیلی کاپٹر یا جہاز نہیں تھا کہ وہ اٹک پہنچ سکتے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’گاڑی یا جہاز نہ ہونا صرف بہانے ہیں۔ عدالت کو یقین دہانی کروا کر بہانے نہیں کیے جاتے۔ اسد عمر سے دوسری مرتبہ رابطہ کیسے نہیں ہوسکتا تھا۔ عدالت کا پہلا کام تھا کہ املاک کو نقصان نہ پہنچانے کا کہتی۔‘
چیف جسٹس نے مزید کہا ’پی ٹی آئی نے تو درخواست ہی ایچ نائن گراؤنڈ کی دی تھی۔ ایچ نائن سے آگے آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ دو وکلاء کے ذریعے عدالت کو گمراہ کیا گیا۔ اپنا قلم آئین کے خلاف استعمال نہیں کرنا چاہتے۔ دس ہزار بندے بلاکر دو لاکھ لوگوں کی زندگی اجیرن نہیں بنائی جاسکتی۔ فیض آباد دھرنے کے دوران ایمبولینس میں لوگ مر گئے تھے۔ جمہوریت کو ماننے والے اس طرح احتجاج نہیں کرتے۔‘
عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ روسٹرم پر آئے اور عدلت سے تفصیلی جواب جمع کرانے کے لیے وقت مانگا اور عمران خان کی طرف سے وضاحت کا موقع طلب کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان کے مطابق انہیں کسی یقین دہانی کا علم نہیں تھا، عمران خان نے عدلیہ کے احترام کا بھی جواب میں ذکر کیا ہے۔
’عدالت اس کیس میں بہت تحمل سے کام لے رہی ہے۔ عدالت کے پاس موجود مواد کے مطابق عمران خان کو نوٹس ہونا چاہیے۔ بظاہر مواد، حقائق اور رپورٹس کی روشنی میں عمران خان ذمہ دار ہیں۔ اس کے باوجود عمران خان کو پھر بھی وضاحت کا موقع دے رہے ہیں۔ جواب عمران خان کے دستخط کے ساتھ ہونا چاہیے۔‘
عدالت نے عمران خان کے وکیل کو تمام ویڈیوز بھی فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سنیچر تک جواب طلب کیا اور کہا کہ سنیچر کو ہی آئندہ سماعت کی تاریخ مقرر کریں گے۔
25 مئی کو کیا ہوا تھا؟
25 مئی کو پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پشاور سے لانگ مارچ کا آغاز کر کے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے تو پی ڈی ایم کی موجودہ حکومت نے اٹک سے آگے تمام راستے بند کر رکھے تھے۔
اس حوالے سے اسلام آباد بار کونسل کی جانب سے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی کہ راستے کھولے جائیں اور تصادم کا راستہ روکا جائے۔
پاکستان تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے عمران خان سے ہدایات لی ہیں اور یقین دہانی کرائی ہے کہ ہم عدالت کے احکامات پر عمل درآمد کریں گے اور پر امن احتجاج کریں گے جس سے عام شہریوں کی زندگی متاثرنہیں ہوگی۔
دن بھر کی سماعت، متعدد وقفوں اور یقین دہانیوں کے بعد عدالت نے تحریک انصاف کو کشمیر ہائی وے سے ملحق گراؤنڈ میں احتجاج کی اجازت دے دی تھی۔
بعد ازاں عدلتی حکم پر عملدر آمد نہ ہونے کے خلاف حکومت کی جانب سے توہین عدالت کی درخواست دائر کی گئی تھی۔