کوئٹہ سمیت صوبے کے 14 اضلاع میں گزشتہ تقریباً ایک ماہ کے دوران ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کے 25 سے زائد واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
بلوچستان میں حالیہ دنوں میں سکیورٹی فورسز پر حملوں سمیت دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق کوئٹہ سمیت صوبے کے 14 اضلاع میں گزشتہ تقریباً ایک ماہ کے دوران ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کے 25 سے زائد واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں جن میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت میں 17 افراد ہلاک ہوئے۔
حکام کے مطابق سب سے زیادہ حملے سکیورٹی فورسز پر ہوئے، مرنے والوں میں نو سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔
جبکہ کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے 17 دہشت گرد بھی گزشتہ ایک ماہ کے دوران مختلف کارروائیوں میں مارے گئے۔
صوبے میں پولیس اور انسداد دہشت گردی کے لیے کام کرنے والے اداروں نے کالعدم تنظیموں کی جانب سے مزید حملوں کا خطرہ ظاہر کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو مستعد رہنے کی ہدایت جاری کی ہے۔
صوبائی محکمہ داخلہ، سی ٹی ڈی ، پولیس اور لیویز سے حاصل اعداد و شمار کے مطابق 30 ستمبر سے تین نومبر تک کوئٹہ، چمن، پشین، ہرنائی، بولان، مستونگ، قلات، نصیرآباد، خاران، تربت، گوادر، ڈیرہ بگٹی، کوہلو، حب میں دس دستی بم حملے، آٹھ بم دھماکے کیے گئے جبکہ ٹارگٹ کلنگ کے آٹھ واقعات رپورٹ ہوئے۔
کوئلہ اور قیمتی پتھر لے جانے والے ٹرکوں پر فائرنگ کے واقعات اس کے علاوہ ہیں۔
کوئٹہ سے متصل ضلع پشین میں یکم نومبر اور 25 اکتوبر کو پولیس کے دو اہلکاروں کو فائرنگ کرکے قتل کیا گیا جن میں سے ایک پولیو ٹیم کی حفاظت پر تعینات تھا۔ اسی طرز کی ٹارگٹ کلنگ کے ایک واقعہ میں پاک افغان سرحدی ضلع چمن میں 27 اکتوبر کو لیویز اہلکار کو قتل کیا گیا جو انسداد پولیو ٹیم کے ساتھ سکیورٹی ڈیوٹی پر تھا۔
پشین اور چمن حملوں کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ہے۔ بلوچستان میں ٹی ٹی پی نے یہ حملے ایک طویل خاموشی کے بعد کیے ہیں۔
اسی طرح کالعدم داعش نے بھی یکے بعد دیگرے دو کارروائیاں کرکے مستونگ میں اپنی موجودگی ظاہر کی ہے۔ 13 اکتوبر کو مستونگ کے پہاڑی علاقے کابومیں ایک شخص کو جاسوسی کے الزام میں ذبح کیا اور اگلے دن جب ان کے رشتہ دار میت لے کر جارہے تھے تو ان کی گاڑی کو دھماکے سے اڑادیا۔ دھماکے میں مزید تین افراد کی موت ہوئی۔
بلوچستان میں کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل اعتزاز احمد گورائیہ کا کہنا ہے کہ صوبے میں دہشت گرد اپنی کارروائیاں کرکے اپنی موجودگی ظاہر کرتے ہیں وہ کسی بھی تنظیم سے ہو سکتی ہے۔
داعش کی جانب سے ایک واقعہ کی ذمہ داری قبول کی گئی ہے ان کا بلوچستان میں کوئی کیمپ موجود نہیں لیکن ہم اس تنظیم سے وابستہ دہشت گردوں کی بلوچستان میں موجودگی سے انکار نہیں کرتے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک جاری جنگ ہے جس طرح فورسز نے پہلے دہشت گرد عناصر کی سرکوبی کی ہے اسی طرح ان حملوں میں ملوث کو بھی جلد تلاش کرکے قانون کی گرفت میں لے آئیں گے۔‘
ڈی آئی جی سی ٹی ڈی کا کہنا ہے کہ ’ہم پولیس، لیویز، ایف سی اوردیگر سکیورٹی اداروں کے ساتھ ملکرکام کررہے ہیں اور اس کے نتیجے میں بلوچستان بالخصوص کوئٹہ میں حالات بہتر ہوئے ہیں۔ پہلے لوگ راتوں کو سفر نہیں کرسکتے تھے ایک دہائی قبل کے حالات کا آج سے موازانہ کیا جائے تو اب صورتحال کافی بہتر ہوئی ہے، معاشی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔‘
اعداد و شمار کے مطابق اس مہینے سب سے زیادہ دہشت گردی کے واقعات وزیراعلیٰ بلوچستان کے مشیر برائے داخلہ کے آبائی ضلع قلات میں رپورٹ ہوئے۔ قلات میں زیادہ تر حملے کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کیے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق 30 اکتوبر کو قلات کے علاقے منگچر میں سکیورٹی فورس کے قافلے کے قریب دھماکا کیا گیا تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ جوابی کارروائی میں ایک حملہ آور کو زخمی حالت میں پکڑا گیا۔
21 اکتوبر کو قلات میں سڑک کنارے بم دھماکے میں دو سکیورٹی اہلکار ہلاک اور تین زخمی ہوئے۔ 18 اکتوبر کو قلات کے علاقے منگچر میں ایف سی کی چوکیوں پر دو دستی بم حملے ہوئے تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ 9 اکتوبر کو قلات کے علاقے جوہان میں سڑک کنارے نصب دھماکے میں فورسز کو راشن لے جانے والی گاڑی کو نشانہ بنایاگیا جس میں دو افراد لقمہ اجل بنے۔
اس کے علاوہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران قلات اور مچھ میں موبائل فون ٹاور کو دھماکوں سے اڑانے کے تین واقعات بھی رپورٹ ہوئے۔
سی ٹی ڈی کے ایک بیان کے مطابق 2021 اور 2022 میں دہشتگرد تنظیموں نے 25 موبائل فون ٹاورز اور بجلی کے آٹھ کھمبوں کو تباہ کیا جبکہ تعمیراتی منصوبے پر 31 حملے کیے۔
جبکہ 2020 سے 2022 میں کالعدم بلوچ لبریشن آرمی اور اس کے وابستگان نے 13 سکولوں، عام لوگوں کے 25 دکانوں، حجام کی سات دکانوں، آٹھ سرکاری عمارتوں کو نشانہ بنایا 32 بار مزدوروں پر حملے کیے۔
سی ٹی ڈی کے بیان میں بتایا گیا کہ ’دہشت گردی کی ان کارروائیوں نے صوبے کے لوگوں کے لیے بنائے گئے انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچایا ہےاور عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی میں خلل ڈالا ہے۔‘
پولیس رپورٹس کے مطابق 30 اکتوبر کو گوادر اور تربت میں دستی بم حملے کیے گئے تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ 26 اکتوبر کو کچھی کے علاقے ڈھاڈر میں پولیس تھانے پر دستی بم حملے میں ایک پولیس اہلکار ہلاک ہوا۔
19 اکتوبر کو تربت میں سکیورٹی ناکے پر دستی بم حملہ کیا گیا جس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ 4 اکتوبر کو حب میں سالگرہ کی تقریب کے دوران گھر پر دستی بم حملے میں خواتین اوربچوں سمیت چھ افراد زخمی ہوئے۔
14 اکتوبر کو خاران میں وفاقی شرعی عدالت اور بلوچستان ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی کو مسجد کے اندر گولیاں مار کر قتل کردیا گیا۔ حملے میں ان کے ایک رشتہ دار زخمی ہوئے۔
13 کو ہرنائی میں ایک کوئلہ کان کن کو قتل کیا گیا۔ 10 اکتوبر کو ڈیرہ بگٹی میں قبائلی رہنما عطاء اللہ کلپر بگٹی پانچ دیگر ا فراد کے ہمراہ ریموٹ کنٹرول بم حملے میں زخمی ہوئے جبکہ ان کا محافظ ہلاک ہوا۔
9 اکتوبر کو افغان پولیس کے سابق کمانڈر عبدالصمد اچکزئی کی کوئٹہ کے علاقے مشرقی بائی پاس پر جبکہ 6 اکتوبر کو تربت میں ایک غیر مقامی شخص کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی۔
ایک ماہ کے دوران مختلف کارروائیوں میں 17 مبینہ دہشت گردوں کو بھی مارا گیا۔ آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں بتایا کہ 30 اکتوبر کو ہرنائی کے علاقے شاہرگ میں سکیورٹی فورسزنے سرچ آپریشن کے دوران چار دہشت گرد مارے۔ کارروائی میں دو سکیورٹی اہلکار بھی جان کی بازی ہار گئے۔
سی ٹی ڈی نے 17 اکتوبر کو خاران میں نوشکی حملے میں ملوث کالعدم بی ایل اے کے چار دہشت گردوں، 16 اکتوبر کو مستونگ میں داعش کے پانچ دہشت گردوں اور 2 اکتوبر کونصیرآباد میں کالعدم بلوچ ری پبلکن گارڈ کے چار دہشت گردوں کو مارنے کا دعویٰ کیا۔ سی ٹی ڈی کے مطابق ان کارروائیوں میں پانچ سی ٹی ڈی اہلکار بھی زخمی ہوئے۔
اس کے علاوہ 29 اکتوبر کو سی ٹی ڈی نے بتایا کہ سابق چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی کے قتل میں ملوث ملزم شفقت اللہ یلانزئی کو ایک آپریشن میں گرفتار کیا گیا۔
سی ٹی ڈی کے ایک سینیئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ صوبے میں دہشت گردی کی نئی لہر سامنے آئی ہے اور وہ تنظیمیں بھی اب دوبارہ سرگرم ہوتی دکھائی دے رہی ہیں جو پچھلے کچھ عرصہ میں زیادہ فعال نہیں تھیں۔
سی ٹی ڈی افسر کے مطابق کوئٹہ میں ایک مہینے میں کالعدم تنظیم کی جانب سے جوائنٹ روڈ اور سریاب کے علاقوں میں تین دستی بم حملے ہوئے ان حملوں میں پانچ افراد زخمی ہوئے ہیں۔ اسی طرح چمن ، پشین ، مستونگ اور قلات میں بھی حملوں میں اضافہ ہواہے۔ ان واقعات سے لگ رہا ہے کہ کالعدم تنظیموں نے کوئٹہ اور اس سے ملحقہ اضلاع میں اپنا نیٹ ورک دوبارہ فعال کردیا ہے۔
اردو نیوز نے ایسے خفیہ سرکاری مراسلے دیکھے ہیں جن میں پولیس، لیویز ، ایف سی اور دیگر قانون نافذ کرنےوالے اداروں کو کالعدم بلوچ لبریشن آرمی، بلوچ لبریشن فرنٹ، بلوچ نیشنلسٹ آرمی اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ممکنہ حملوں کے حوالے سے خبردار کیا گیا ہے۔
پولیس کی جانب سے جاری کیے گئے ان تھریٹ الرٹس میں کہا گیا ہے کہ کالعدم تنظیمیں گوادر، تربت، کوئٹہ، بارکھان، ژوب، قلعہ سیف اللہ، زیارت، لورالائی میں سکیورٹی اہلکاروں اور سرکاری املاک پر حملے کرسکتی ہیں جب کہ سکیورٹی اہلکاروں کے رشتہ داروں کو اغوا کا بھی خدشہ ظاہر کیا ہے اور تدارک کے لیے پیشگی اقدامات کی ہدایت کی ہے۔