Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغان طالبات سکول یونیفارم پہننے کی عمر میں شادی کا جوڑا پہننے پر مجبور

پچھلے سال اقتدار میں آنے کے بعد طالبان نے لڑکیوں کے سکول بند کر دیے تھے (فوٹو: اے ایف پی)
افغانستان میں سکولوں کی بندش کے بعد طالبات کی جلد از جلد شادی کا سلسلہ زور پکڑ گیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے 13 سالہ زینب کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اس عمر میں جب اسے  بازار میں سکول یونیفارم خریدنا چاہیے، انہیں شادی کا جوڑا خریدنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔
پچھلے سال طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ایسی بے شمار لڑکیوں کی شادیاں ہو چکی ہیں جو اس سے قبل سکولوں میں پڑھ رہی تھیں اور اگر سکول بند نہ ہوتے تو آج اگلی جماعت میں ہوتیں۔
رپورٹ کے مطابق زیادہ تر لڑکیوں کی شادی بڑی عمر کے افراد کے ساتھ ہوتی ہے جس کا فیصلہ لڑکی کا والد کرتا ہے اور لڑکی کی پسند کا اس میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔
زینب کا کہنا ہے کہ ’میں بہت روئی اور والد کو سمجھاتی رہی کہ ابھی (میری شادی) نہ کریں، طالبان سکول دوبارہ کھول دیں گے۔‘
ان کے مطابق ’میرے والد نے کہا کہ ایسا نہیں ہو گا۔ گھر میں ’فارغ‘ بیٹھنے سے بہتر ہے کہ تمہاری شادی کر دی جائے۔‘
زینب کی شادی کا فیصلہ گھنٹوں میں طے پا گیا اور دولہا اپنے رشتہ داروں اور کچھ ’سامان‘ کے ساتھ ان کے ہاں پہنچا تھا۔
اس سامان میں بھیڑیں، بکریاں، چاول کی چار بوریاں شامل تھا جو کہ ایک طرح سے ’دلہن کی قیمت‘ ہوتی ہے۔
افغانستان نے دلہن کے بدلے اشیا کی فراہمی صدیوں سے چلا آنے والا رواج ہے۔

طالبان کی جانب سے سکولوں کی بندش کے بعد والدین جلد از جلد لڑکیوں کی شادیاں کرا رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

رواج کے مطابق زینب اپنے دولہا، جو کہ اس سے 17 سال بڑا ہے کے ساتھ سسرال چلی گئی اور تب سے وہیں رہ رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’شادی کے لیے کسی نے مجھ سے میری رائے معلوم نہیں کی۔‘
افغانستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں لڑکیوں کے سیکنڈری سکولوں میں جانے پر پابندی ہے۔
پدرشاہی نظام اور معاشی حالات کی خرابی کے باعث زیادہ تر والدین کی کوشش ہے کہ نوعمری میں ہی لڑکیوں کی شادی کر دی جائے۔
یہ لڑکیاں طالبان کے حکومت سنبھالنے کے بعد سے گھروں تک ہی محدود ہیں کیونکہ سکول جانے کا سلسلہ پہلے ہی منطقع ہو چکا ہے۔
طالبان کے گڑھ قندھار میں بیاہی جانے والی زینب نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’والدین کے گھر پر میں صبح دیر سے جاگا کرتی تھی مگر یہاں کبھی دیر ہو جائے تو سبھی ڈاٹتے ہیں۔‘

طالبان نے پچھلے سال نیٹو افواج نکلنے کے بعد افغانستان کا کنٹرول سنبھالا تھا (فوٹو: روئٹرز)

ان کے بقول ’سسرال والے کہتے ہیں کہ ہم نے تم پر اتنا خرچہ کیا ہے اور تمھیں کسی چیز کا پتہ ہی نہیں۔‘
دوسری جانب لڑکیوں کے والدین کا خیال ہے کہ افغانسان میں بچیوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے اس لیے جلد بیاہنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہرات میں ٹیچرز ایسوسی ایشن کے سربراہ محمد مشال کا کہنا ہے کہ ’ہمیں یہ بہتر لگتا ہے کہ لڑکیوں کی شادی کی جائے اور وہ نئی زندگی شروع کریں۔‘
پچھلے سال جب طالبان نے ملک کا کنٹول سنبھالا اس وقت یہ امید ظاہر کی گئی تھی کہ وہ اپنے پچھلے دور حکومت کے مقابلے میں خواتین کو آزادیاں دیں گے مگر ایسا نہیں ہو سکا۔

طالبان کے اقتدار میں آنے سے قبل بڑی تعداد میں لڑکیاں مختلف سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہی تھیں (فوٹو: اے ایف پی)

وزارت تعلیم کی جانب سے مارچ میں سکول کھولے جانے کی منصوبہ بندی کو سپریم لیڈر ہبت اللہ اخونزادہ کے حکم پر روک دیا گیا ہے۔
طالبان حکام کا دعوٰی ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عارضی ہے مگر جب بھی اس کو ختم کیے جانے کی بات ہوئی انہوں نے حیلے بہانوں سے اس کو برقرار رکھا۔
چھوٹی عمر میں شادی لڑکیوں کی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔
ایسی شادیاں افغانستان کے دیہی علاقوں میں عام ہیں جہاں لڑکی کے والدین کو رقم دی جاتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ تعلیم لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کی راہ روکنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
کم عمری میں زچگی کے مراحل سے گزرنے پر ماؤں کے علاوہ بچوں کی شرح اموات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

شیئر: