پولینڈ میں گرنے والا میزائل روسی حملہ نہیں تھا: پولش صدر
منگل کو پولینڈ کی یوکرین کے ساتھ سرحد کے قریب میزائل گر گیا تھا جس میں دو افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ (فوٹو: اے پی)
پولینڈ نے بدھ کو کہا ہے کہ ایسے کوئی شواہد نہیں اور امکانات نہیں کہ ملک کی حدود میں گرنے والے میزائل پولینڈ پر حملہ تھا۔
پولینڈ کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں گرنے والا میزائل ممکنہ طور پر یوکرین نے روس کی جانب سے فضائی حملے کو روکنے کے لیے فائر کیا تھا۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق پولینڈ کے صدر آن زے دودا نے کہا کہ یوکرین کے دفاعی افواج مختلف سمتوں میں میزائل فائر کرتے رہے ہیں اور اس کا غالب امکان ہے کہ بدقستی سے ان میزائلوں میں سے ایک پولینڈ کی حدود میں گرا۔
’اس بات کا کوئی ثبوت نہیں بلکہ کچھ بھی نہیں جس سے یہ تاثر ملے کہ یہ پولینڈ پر حملہ تھا۔‘
خیال رہے کہ منگل کو پولینڈ کے مشرقی علاقے میں روسی ساختہ میزائل گرنے سے دو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینز سٹولن برگ نے اتحاد کے برسلز میں ہونے والے اجلاس میں پولینڈ کے صدر کے اس بات سے متفق نظر آئے۔
جینز سٹولن برگ نے صحافیوں کو بتایا کہ ’اس واقعے کی تحقیقات جاری ہے اور ہمیں اس کے نتائج کا انتظار کرنا چاہیے۔ لیکن ہمارے پاس کوئی ثبوت نہیں کہ یہ ایک سوچا سمجھا حملہ تھا۔‘
ابتدائی تحقیقات کے نتائج امریکی صدر جو بائیڈن کے اس بیان کے بعد سامنے آئے کہ یہ ’امکان نہیں‘ کہ میزائل روس کی جانب سے فائر کیا گیا ہے۔
لیکن صدر بائیڈن نے کہا ہم اس بات کو یقینی بنانے جارہے ہیں کہ یہ معلوم ہو کہ اصل میں ہوا کیا ہے۔
منگل کو پولینڈ کی یوکرین کے ساتھ سرحد کے قریب میزائل گر گیا تھا۔
امریکی حکام کے مطابق ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ میزائل یوکرینی افواج نے روس کی جانب کیے گئے حملے کے جواب میں فائر کیا گیا تھا۔
قبل ازیں روس کی وزارتِ دفاع نے روسی میزائلوں کے پولینڈ کی حدود میں گرنے کی تردید کی تھی۔
روسی حکومت کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا تھا کہ انہیں پولینڈ میں ہونے والے دھماکے کے بارے میں علم نہیں ہے۔
چین نے پولینڈ میں میزائل گرنے کے واقعے کے بعد کہا ہے کہ تمام فریقوں کو ’پرامن رہنا‘ چاہیے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ نے بھی یوکرین کے خلاف جنگ کو بڑھاوا دینے سے گریز کرنے پر زور دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ انہیں پولینڈ کی حدود میں میزائل پھٹنے پر تشویش ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اآن زے دوداس وقت ضروری ہے کہ یوکرین جنگ میں تیزی لانے والے اقدامات سے گریز کیا جائے۔‘