خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع خصوصاً سابقہ قبائلی علاقے دہشت گردی سے شدید متاثر ہوئے تھے۔ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے فوجی آپریشنز ہوئے اور ایک طویل عرصے بعد امن قائم ہوا تاہم اب پھر سے ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جس سے امن کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
گزشتہ ایک ماہ کے دوران قبائلی اضلاع میں دہشت گردی کے درجنوں واقعات پیش آئے جن میں سکیورٹی فورسز اور پولیس سمیت کئی شہری ہلاک ہوئے۔
ان اضلاع میں جنوبی و شمالی وزیرستان، ڈی آئی خان اور لکی مروت شامل ہیں۔ ان علاقوں میں دہشت گردی کے ساتھ مختلف شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ بھی کی گئی ہے۔
مزید پڑھیں
-
پاکستان کیخلاف دہشت گردی کیلئےافغان سرزمین کے استعمال کی مذمتNode ID: 711626
-
لکی مروت میں پولیس کی گاڑی پر حملہ، چھ اہلکار ہلاکNode ID: 718156
دہشت گردی کے واقعات پر ایک نظر
اگر تین ہفتوں کے واقعات کو دیکھا جائے تو 25 اکتوبر کو ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے کرامت آباد میں امن کمیٹی کے سربراہ کے دفتر پر خودکش حملہ کرنے کی کوشش کی گئی جو سکیورٹی گارڈز کی فائرنگ سے ناکام ہوا اور دونوں عسکریت پسند دھماکے سے پہلے مار دیے گئے۔
اکتوبر کے ہی مہینے میں 29 تاریخ کو ڈیرہ اسماعیل خان میں عسکریت پسندوں کے ساتھ مقابلے میں پاکستان آرمی کے دو اہلکار ہلاک ہوئے۔
نو نومبر کو شمالی وزیرستان کی تحصیل برمل میں عسکریت پسندوں نے پولیس سٹیشن پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں دو پولیس اہلکار ہلاک اور چار زخمی ہوئے۔
11نومبر کو وانا بازار میں فائرنگ سے دو جبکہ 16 نومبر کو ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے دو عمائدین کو قتل کیا گیا۔
رواں ماہ 16 نومبر کو لکی مروت میں پولیس موبائل وین پر عسکریت پسندوں کی فائرنگ سے چھ پولیس اہلکارو ہلاک ہوئے جس کی ذمہ داری کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے لی۔
16 نومبر کے ہی دن ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کلاچی میں سکیورٹی فورسز کی آپریشن کے دوران تین دعسکریت پسند کمانڈر ہلاک کیے گئے۔
18 نومبر کو جنوبی وزیرستان میں خودکش دھماکہ ہوا جس میں دو افراد ہلاک اور تین زخمی ہوئے۔

مقامی صحافی رسول داوڑ کے مطابق جنوبی اضلاع میں حالات ایک بار پھر خراب ہو رہے ہیں، ماضی کی طرح دہشت گردی کے بڑے واقعات رونما نہیں ہوئے، تاہم واقعات میں تسلسل نظر آرہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’زیادہ تر واقعات کی ذمہ داری کالعدم ٹی ٹی پی نے قبول کی اور ان حملوں کو جوابی کارروائی قرار دیا جا رہا ہے۔‘
پولیس کا موقف
پشاور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے انسپکٹر جنرل پولیس معظم جاہ انصاری نے بتایا کہ ’افغانستان میں طالبان کی حکومت کے بعد بیشتر دہشت گرد جیل سے رہا کیے گئے اور اب امریکی فوجیوں سے رہ جانے والے ہتھیار دہشت گرد ہمارے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔‘
آئی جی پولیس معظم جاہ کا کہنا تھا کہ ’دہشت گرد سافٹ ٹارگٹ کی تلاش میں ہیں، لیکن ہمارے جوان ڈرنے والے نہیں انشااللہ ان امن دشمنوں کا جلد خاتمہ کیا جائے گا۔‘
صوبائی حکومت کیا کہتی ہے؟
موجودہ صورتحال کے حوالے سے خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے موقف اپنایا کہ افغانستان سے عسکریت پسندوں کے مختلف گروپس جنوبی اضلاع میں موجود ہیں جو ان کارروائیوں کے پیچھے ہیں۔
’ضروری نہیں کہ ہر واقعہ کے پیچھے ٹی ٹی پی ملوث ہو، بہت سے اور گروپس ہیں جو ہمارے مذاکرات کے مخالف ہیں۔‘
