Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خیبرپختونخوا میں دہشت گردی، پولیس کیا کہتی ہے؟

مقامی صحافی رسول داوڑ کے مطابق دہشت گردی کے زیادہ تر واقعات کی ذمہ داری کالعدم ٹی ٹی پی نے قبول کی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع خصوصاً سابقہ قبائلی علاقے دہشت گردی سے شدید متاثر ہوئے تھے۔ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے فوجی آپریشنز ہوئے اور ایک طویل عرصے بعد امن قائم ہوا تاہم اب پھر سے ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جس سے امن کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
گزشتہ ایک ماہ کے دوران قبائلی اضلاع میں دہشت گردی کے درجنوں واقعات پیش آئے جن میں سکیورٹی فورسز اور پولیس سمیت کئی شہری ہلاک ہوئے۔ 
ان اضلاع میں جنوبی و شمالی وزیرستان، ڈی آئی خان اور لکی مروت شامل ہیں۔ ان علاقوں میں دہشت گردی کے ساتھ مختلف شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ بھی کی گئی ہے۔
دہشت گردی کے واقعات پر ایک نظر
اگر تین ہفتوں کے واقعات کو دیکھا جائے تو 25 اکتوبر کو ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے کرامت آباد میں امن کمیٹی کے سربراہ کے دفتر پر خودکش حملہ کرنے کی کوشش کی گئی جو سکیورٹی گارڈز کی فائرنگ سے ناکام ہوا اور دونوں عسکریت پسند دھماکے سے پہلے مار دیے گئے۔
اکتوبر کے ہی مہینے میں 29 تاریخ کو ڈیرہ اسماعیل خان میں عسکریت پسندوں کے ساتھ مقابلے میں پاکستان آرمی کے دو اہلکار ہلاک ہوئے۔ 
نو نومبر کو شمالی وزیرستان کی تحصیل برمل میں عسکریت پسندوں نے پولیس سٹیشن پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں دو پولیس اہلکار ہلاک اور چار زخمی ہوئے۔
 11نومبر کو وانا بازار میں فائرنگ سے دو جبکہ 16 نومبر کو ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے دو عمائدین کو قتل کیا گیا۔ 
رواں ماہ 16 نومبر کو لکی مروت میں  پولیس موبائل وین پر عسکریت پسندوں کی فائرنگ سے چھ پولیس اہلکارو ہلاک ہوئے جس کی ذمہ داری کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے لی۔
16 نومبر کے ہی دن ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کلاچی میں سکیورٹی فورسز کی آپریشن کے دوران تین دعسکریت پسند کمانڈر ہلاک کیے گئے۔
18 نومبر کو جنوبی وزیرستان میں خودکش دھماکہ ہوا جس میں دو افراد ہلاک اور تین زخمی ہوئے۔

صوبائی ترجمان بیرسٹر سیف نے اردو نیوز کو بتایا کہ حکومت کے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔ (فوٹو: روئٹرز)

مقامی صحافی رسول داوڑ کے مطابق جنوبی اضلاع میں حالات ایک بار پھر خراب ہو رہے ہیں، ماضی کی طرح دہشت گردی کے بڑے واقعات رونما نہیں ہوئے، تاہم واقعات میں تسلسل نظر آرہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’زیادہ تر واقعات کی ذمہ داری کالعدم ٹی ٹی پی نے قبول کی اور ان حملوں کو جوابی کارروائی قرار دیا جا رہا ہے۔‘

پولیس کا موقف 

پشاور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے انسپکٹر جنرل پولیس معظم جاہ انصاری نے بتایا کہ ’افغانستان میں طالبان کی حکومت کے بعد بیشتر دہشت گرد جیل سے رہا کیے گئے اور اب امریکی فوجیوں سے رہ جانے والے ہتھیار دہشت گرد ہمارے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔‘
آئی جی پولیس معظم جاہ کا کہنا تھا کہ ’دہشت گرد سافٹ ٹارگٹ کی تلاش میں ہیں، لیکن ہمارے جوان ڈرنے والے نہیں انشااللہ ان امن دشمنوں کا جلد خاتمہ کیا جائے گا۔‘

صوبائی حکومت کیا کہتی ہے؟

موجودہ صورتحال کے حوالے سے خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے موقف اپنایا کہ افغانستان سے عسکریت پسندوں کے مختلف گروپس جنوبی اضلاع میں موجود ہیں جو ان کارروائیوں کے پیچھے ہیں۔ 
’ضروری نہیں کہ ہر واقعہ کے پیچھے ٹی ٹی پی ملوث ہو، بہت سے اور گروپس ہیں جو ہمارے مذاکرات کے مخالف ہیں۔‘

لکی مروت میں  پولیس موبائل وین پر عسکریت پسندوں کی فائرنگ سے چھ پولیس اہلکارو ہلاک ہوئے۔ (فوٹو: کے پی پولیس)

صوبائی ترجمان بیرسٹر سیف نے اردو نیوز کو بتایا کہ حکومت کے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات تعطل کا شکار ہیں جس سے دیگر دہشت گرد تنظیمیں فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ 
’ہمارا بہت ہی کلیئر ایجنڈا ہے جو ہتھیار اٹھائے گا اس کے خلاف آپریشن ہوگا اور جو بات چیت کرنا چاہتا ہے اس سے مذاکرات کیے جائیں گے۔ سکیورٹی فورسز ٹارگٹڈ آپریشن کر رہی ہے جن میں کافی حد تک کامیابی ملی ہے۔‘
پاکستان اور افغان امور کے تجزیہ کار پروفیسر حسین شہید سہروردی کے مطابق افغانستان دہشت گردوں کی نرسری ہے جہاں متعدد عسکریت پسند تنظیمیں موجود ہیں۔  
ان کا کہنا تھا کہ امریکی فوجیوں کے انخلاء کے ساتھ ہی دہشت گرد تنظیمیں مضبوط ہوگئی ہیں۔ ’طالبان کو چاہیے کہ وہ تمام سرحدی علاقوں میں مکمل کنٹرول حاصل کریں۔ دہشت گردی کا اثر ہمارے قبائلی اضلاع  پر براہ راست پڑ رہا ہے، مجھے لگتا ہے بدامنی میں مزید اضافہ بھی ہوگا۔‘
واضح رہے کہ 13 نومبر کو وانا بازار میں دہشت گردی اور بدامنی کے خلاف شہریوں کی بڑی تعداد نے امن مارچ کیا جس میں شرکاء نے حکومت سے امن کے قیام کا مطالبہ کیا تھا۔

شیئر: