Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ ممالک جہاں پاکستانی طلبا اعلٰی تعلیم کے لیے جا سکتے ہیں

امریکہ بھی پاکستانی طلبا کے لیے تعلیم کے حصول کے پسندیدہ ترین ممالک میں آتا ہے (فوٹو: عرب نیوز)
اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے پاکستانیوں کی بڑی تعداد دوسرے ممالک کا رخ کرتی ہے اور ماہرین کے مطابق طلبا کی اکثریت تعلیم کے لیے برطانیہ جاتی ہے۔
امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، جرمنی، اٹلی، سویڈن، ڈنمارک، ناروے، فرانس، چین، روس، وسط ایشائی ریاستیں، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر، قطر، کویت، کوریا، جاپان اور ترکی جیسے ممالک پاکستانی طلبا کی منزل قرار پاتے ہیں۔

اردو نیوز کا فیس بک پیج لائک کریں

ماہرین اور اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ پاکستانی طلبا کی اعلیٰ تعلیم کے لیے پہلی منزل برطانیہ ہے۔  
اس کی ایک وجہ دونوں ممالک کا تاریخی پس منظر ہے کیونکہ بانیان پاکستان میں سے بھی کئی اہم رہنما برطانیہ سے فارغ التحصیل رہے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد برطانیہ میں مقیم ہے تو لوگوں کو اپنے رشتہ داروں کے پاس جا کر پڑھنے میں آسانی رہتی ہے۔   
امریکہ بھی پاکستانی طلبا کے لیے تعلیم کے حصول کے لیے منتخب کیے جانے والے پسندیدہ ترین ممالک میں آتا ہے۔ حیران کن طور پر 9/11 کے بعد امریکی یونیورسٹیوں میں پاکستانی طلبا کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔   
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چین جانے والے پاکستانی طلبا کی تعداد میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور اس وقت بھی پاکستانی طلبا کی ایک بڑی تعداد وہاں موجود ہے۔ کورونا کی وجہ سے اگرچہ وقتی طور پر اس رجحان میں کمی واقع ہوئی، لیکن دونوں ملکوں کے تعلقات اور سی پیک منصوبوں کے تناظر میں اس میں بہت زیادہ اضافے کا بھی امکان ہے۔  
سعودی عرب سے پاکستانی طلبا کو ملنے والے تعلیمی وظائف 
اکثر یورپی ممالک اور سعودی عرب بھی پاکستانی طلبا کے لیے تعلیم کے مواقع فراہم کر رہے ہیں۔ سعودی عرب نے پاکستانی طلبا و طالبات کے لیے 25 جامعات میں وظائف کا اعلان کیا ہے۔
پاکستان کے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے مطابق سعودی عرب کی جامعات میں داخلے کے خواہش مند طلبا و طالبات کے لیے یہ سکالر شپس (وظائف) پولیٹیکل سائنس، قانون، ایجوکیشن، ایڈمنسٹریشن، معاشیات، انجینئرنگ، کمپیوٹر سائنس، ایگریکلچر، عربی/اسلامک سٹڈیز اور میڈیا سائنس میں دستیاب ہیں۔
بیرون ملک جانے والے پاکستانی طلبا کی تعداد میں نمایاں اضافہ

سروے کے مطابق پانچ لاکھ طلبا نے ٹیکنیکل اور ووکیشنل اداروں میں داخلہ لیا (فوٹو: اے ایف پی)

دنیا کی پانچویں بڑی آبادی کے ساتھ پاکستان ایسا ملک ہے جس کی 55 فیصد آبادی 25 سال سے کم عمر افراد پر مبنی ہے۔ پاکستان میں حکومتوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود شرح تعلیم بمشکل 62 فیصد تک پہنچی ہے جس کا مطلب ہے کہ چھ کروڑ افراد ناخواندہ ہیں۔
2021-22 کے اقتصادی سروے کے مطابق سال 2021-22 میں ایک کروڑ 44 لاکھ بچوں نے پری پرائمری سکولوں میں داخلہ لیا۔ دو کروڑ 57 لاکھ نے پہلی سے پانچویں جماعتوں میں، 83 لاکھ چھٹی سے آٹھویں، 45 لاکھ نویں اور دسویں، جبکہ 25 لاکھ نے گیارہویں اور بارہویں جماعتوں میں داخلہ لیا۔   
سروے کے مطابق پانچ لاکھ طلبا نے ٹیکنیکل اور ووکیشنل اداروں میں داخلہ لیا، سات لاکھ 60 ہزار نے ڈگری ایوارڈنگ کالجوں جبکہ ایک اعشاریہ 96 ملین طلبا یونیورسٹیوں میں گئے۔   
اقتصادی سروے کے مطابق 83 ہزار نو سو پرائمری سکول، 48 ہزار تین سو مڈل سکول، 32 ہزار سیکنڈری سکول، چھ ہزار ہائیر سیکنڈری سکول اور 38 سو ٹیکنیکل اور ووکیشنل ادارے ہیں۔ پاکستان میں دو سو سے زائد یونیورسٹیاں، جبکہ تین ہزار سے زائد ڈگری کالجز ہیں۔ نجی تعلیمی اداروں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔   
یونیسکو کے مطابق 60 ہزار سے زائد پاکستانی طلبا و طالبات بیرون ملک تعلیمی اداروں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور اس رجحان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ کورونا کے باوجود 2020-21 میں برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے والے پاکستانی طلبا کی تعداد میں 66 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔
ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے اعداد وشمار کے مطابق 2020-21 میں 623 سکالرز پی ایچ ڈی، ایم ایس اور انڈرگریجویٹ بیرون ملک پڑھنے کے لیے گئے، جبکہ 223 سکالرز نے ایچ ای سی کے فنڈز سے بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم مکمل کی۔
ایچ ای سی کے ترجمان کے مطابق ایچ ای سی کا براہ راست تعلق یا تو بیرون ملک حکومتوں سے ہوتا ہے یا پھر یونیورسٹیوں کے ساتھ۔ یہ پاکستان میں اساتذہ اور ہونہار طلبا کو بیرون ملک تعلیم کے حصول میں معاونت فراہم کرتا ہے اور اس سلسلے میں سکالرشپس کا اہتمام کرتا ہے۔

راجہ تجمل حسین کے مطابق برطانیہ، امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کا معاملہ ذرا مختلف ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ترجمان کے مطابق ایچ ای سی کے وظائف کے علاوہ ہزاروں کے حساب سے پاکستانی دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں داخلہ لیتے ہیں۔ یہ ان کی اپنی مالی حیثیت، تعلیمی گریڈز اور تعلیم کے شعبہ پر منحصر ہے کہ وہ کس ملک جانا پسند کرتے ہیں۔
اس حوالے سے بیرون ملک تعلیم کے حصول کے لیے معاونت کرنے والے کنسلٹنٹ راجہ تجمل حسین نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس وقت پوری دنیا میں پاکستانی طلبا کے لیے تعلیمی ویزے دستیاب ہیں، لیکن وہ کسی بھی ملک کے تعلیمی نظام، رینکنگ اور وہاں رہنے کی سہولیات اور مستقبل میں رہائش اور ملازمتوں کے مواقع دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ کہاں جانا چاہتے ہیں۔  
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں معاشی صورت حال، ملازمتوں کے کم مواقع اور نسبتاً خراب معیار زندگی ہونے کی وجہ سے پاکستان کی نوجوان نسل بیرون ملک تعلیم کے لیے جانا چاہتی ہے۔ 
طلبا کے لیے امیگریشن قوانین میں نرمی کے متعلق حکومتوں کی ذمہ داری  
اس کے علاوہ طلبا جن ممالک کا رخ کرتے ہیں ان کی یونیورسٹیاں بھی اپنی رینکنگ اور تعلیمی معیار کو پوری دنیا میں منوانے کے لیے پاکستان سمیت دنیا بھر سے طلبا کے داخلوں کے لیے کوشاں رہتی ہیں اور اپنی حکومتوں کو امیگریشن پالیسیوں میں نرمی کے لیے تجاویز دیتی رہتی ہیں۔
راجہ تجمل حسین کے مطابق برطانیہ، امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ وہاں یونیورسٹیوں کو صنعت کا درجہ حاصل ہے۔ ان کی فیسیں بھی نسبتاً زیادہ ہیں۔ اس وجہ سے اگر امیگریشن پالیسیوں میں سختی آئے بھی تو یونیورسٹیوں کا دباو بڑھنے سے انہیں فیصلے تبدیل کرنے پڑتے ہیں۔   

راجہ تجمل کے مطابق  ہماری حکومتوں نے اپنے طور پر جانے والے طلبا کے حوالے سے کچھ زیادہ غور نہیں کیا (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ ’ان ممالک کی یونیورسٹیوں میں ایشیائی طلبا کے حوالے سے مسائل ضرور ہوتے ہیں، لیکن اس کا انحصار ہماری حکومتوں پر ہوتا ہے۔‘

اردو نیوز کا یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں

’مثال کے طور پر انڈیا، برطانیہ سمیت دیگر ممالک کے ساتھ اپنے طلبا کی تعلیم کے لیے مسلسل رابطے کرتا ہے اور ان کے لیے پالیسیوں میں نرمی کے لیے دباو بڑھاتا رہتا ہے، جبکہ ہماری حکومتوں نے اپنے طور پر جانے والے طلبا کے حوالے سے کچھ زیادہ غور نہیں کیا اور نہ ہی میزبان ملکوں سے کبھی ان معاملات پر غور کرنے کا کہا ہے۔‘
تعلیمی ماہرین کے مطابق برطانیہ میں موجودہ اور سابق سیکرٹری داخلہ نے طلبا کی امیگریشن روکنے کی بات کی، لیکن ان کے مطابق یہ صرف میڈیا گیلریز سے کھیلنے کے مترادف ہے، کیونکہ یونیورسٹیوں کے اوورسیز طلبا سے جتنا ریونیو ملتا ہے کوئی بھی ملک اس طرح کی کسی پابندی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

شیئر: