غیرملکی طلبہ کے منفرد تجربات، ’پاکستان آ کر پڑھو، یہاں کی بریانی بہت لذیذ ہے‘
غیرملکی طلبہ کے منفرد تجربات، ’پاکستان آ کر پڑھو، یہاں کی بریانی بہت لذیذ ہے‘
ہفتہ 27 اگست 2022 7:23
ادیب یوسفزئی - اردو نیوز
پاکستان کی سرکاری اور نجی جامعات میں غیرملکی طلبہ زیرِ تعلیم ہیں۔ (فوٹو: اردو نیوز)
پاکستان کی اکثر بڑی جامعات میں مختلف ممالک سے آئے طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
ان میں جنوبی کوریا، نیپال، شام، بھوٹان، افغانستان، یمن، ابوظبی، سری لنکا، فلسطین، صومالیہ اور کئی دوسرے ممالک کے طلبہ شامل ہیں۔ یہ عرصہ دراز سے پاکستان کی سرکاری اور نجی جامعات میں زیرِ تعلیم ہیں۔
ان میں سے بہت سارے پاکستان کی ثقافت میں رچ بس گئے ہیں اور نہ صرف یہاں کے کھانوں کے دیوانے ہو چکے ہیں بلکہ انہوں نے اُردو زبان بھی سیکھ لی ہے۔
بیشتر غیرملکی طلبہ تو محض بریانی کی وجہ سے اپنے کئی ہم وطنوں کو پاکستان آ کر تعلیم مکمل کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔
انہی میں سے ایک نیپال کے روی پرساد گپتا ہیں جو پاکستان کی ایک بڑی سرکاری جامعہ میں فارمیسی کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں اعلٰی تعلیم کے چار سال بیرون ملک سے آئے طلبہ کی زندگی بدل دیتے ہیں۔‘
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’بیرون ممالک کے طلبہ پاکستانی ثقافت، تعلیمی سرگرمیوں اور یہاں کے رہن سہن سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ باہر سے آنے والے تمام غیرملکی طلبہ پاکستانی بریانی سے ضرور لطف اٹھائیں گے۔‘
سری لنکا کے ایک طالب علم عاضیر احمد جو یہاں کی ایک سرکاری جامعہ میں زیر تعلیم ہیں، کہتے ہیں کہ انہوں نے ’حب الوطنی پاکستانیوں سے سیکھی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستانیوں میں حب الوطنی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہے اور انہوں نے خود پاکستانیوں سے اپنے وطن سے محبت کرنا سیکھا ہے۔‘
تاہم عاضیر احمد کو پاکستانی تعلیمی نظام میں رٹہ سسٹم کچھ زیادہ پسند نہیں آیا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اُن کے ملک سری لنکا میں تعمیری تعلیمی نظام ہے جہاں طلبہ کو خود سے کچھ کرنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں زیادہ تر تعلیم یادداشت پر منحصر ہے۔‘
’پاکستان میں کوئی چیز نہ سمجھنے کے باوجود آپ اگر ایک مختصر سلیبس یاد کر لیں گے تو آپ سوال کا جواب لکھ کر آگے کے لیول پر جا سکتے ہیں۔ یقیناً اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ پاکستانیوں کی یادداشت بہت مضبوط ہے اور وہ کوئی بھی سوال آسانی سے یاد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘
عاضیر احمد کے مطابق ’لیکن طلبہ کو سمجھنے کی صلاحیت پر دھیان دینا چاہیے کیونکہ مستقبل میں جب یہ طلبہ عملی میدان میں جائیں گے تو ان کو مشکلات کا ایک پہاڑ سر کرنا ہو گا جو محض یادداشت کی بدولت ممکن نہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں سلیبس کی تکمیل سری لنکا سے کہیں پہلے ہو جاتی ہے۔
عاضیر احمد پاکستانیوں کے خالص پن سے بھی متاثر ہیں۔
اس حوالے سے انہوں نے کہا ’ہم جتنے بھی لوگوں سے ملے ہیں ان کے دل صاف ہیں۔ یہاں کے لوگ اتنے مہمان نواز ہیں کہ اکثر جب ہم مقامی ہوٹلز میں کھانا کھانے جاتے ہیں تو ہم سے پیسے بھی نہیں لیے جاتے۔ میں یہاں کے لوگوں کی تعریف الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔‘
افغانستان سے بین الاقوامی تعلقات کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے پاکستان آنے والے سید ادریس ہاشمی یہاں ہونے والے تحقیقی کام سے بہت متاثر ہیں۔
اس حوالے سے انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں تعلیمی سطح کافی بلند ہے۔ ہم جب یہاں آئے تو تحقیقی کام کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ یہاں آنے کے بعد ہمارے تجربات میں اضافہ ہوا۔‘
پاکستان میں پڑھنے والے بہت سے غیرملکی طلبہ سوشل سائنسز، نیچرل سائنسز، میڈیکل اور انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
انہی میں سے ایک صومالیہ کے محمود ابدیریسک ہیں جو لاہور کی ایک یونیورسٹی سے انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور آخری تعلیمی سال میں ہیں۔
محمود ابدیریسک کے خیال پاکستان کا تعلیمی نظام بہت سارے ممالک سے بہترین پوزیشن پر ہے اور وہ اپنی ڈگری مکمل کرنے کے بعد اپنے وطن لوٹ کر یہاں سے سیکھی ہوئی چیزوں کو اپنے کیریئر میں استعمال کریں گے۔
سری لنکا کے روی پرساد پاکستان کے طرز زندگی کو پسند کرتے ہیں اور ان کے مطابق یہ دنیا بھر میں منفرد ہے۔
’یہاں 24 گھنٹے مارکیٹیں کھلی رہتی ہیں۔ یہاں رات کے وقت زندگی عروج پر رہتی ہے جو دیگر ممالک میں آپ کو نہیں ملے گی۔‘
انڈونیشیا کے شہر بنڈونگ سے اسلام آباد کی انٹرنیشنل یونیورسٹی میں بین الااقوامی تعلقات کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے آنے والے شاہ احمد پاکستان کے رواجوں سے بہت متاثر ہیں۔
وہ کہتے ہیں ’یہاں کی تہذیب بہت نرالی ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ پاکستانیوں کے ساتھ کیفے یا ریسٹورنٹ میں بیٹھے ہیں تو وہ کہتے ہیں آج کھانے کے پیسے ہم دیں گے آپ اگلے ہفتے دے دینا۔ لیکن اگلے ہفتے یہ لوگ پھر کھانے کے پیسے دے دیتے ہیں۔ اسی لیے یہاں کی ثقافت مجھے بہت زیادہ پسند ہے۔‘