Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سوات کے پہاڑی علاقوں پر پولیس کا کنٹرول، کیا طالبان واپس چلے گئے؟ 

سوات میں طالبان کے خلاف بڑے پیمانے پر عوامی احتجاج کیا گیا (فائل فوٹو: سوات پولیس)
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کے بالائی علاقوں میں پولیس نے طالبان کے ٹھکانوں اور مورچوں کو تباہ کر کے علاقہ کلیئر کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں دہشت گردی اور بدامنی کی صورت حال کی وجہ سے عوام کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا، عام شہری اور سماجی تنظیموں سمیت ہر سیاسی جماعت کی طرف سے امن جلسے کا انعقاد کیا گیا۔ 
امن و امان کی ابتر صورت حال کے پیش نظر سوات میں چیف سیکریٹری، آئی جی پولیس سمیت دیگر اعلٰی افسران کی سربراہی میں گرینڈ جرگہ بھی منعقد کیا گیا جس میں امن کے قیام کے لیے تمام اقدامات کرنے پر اتفاق کیا گیا۔
سوات پولیس کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ ’تحصیل مٹہ کے پہاڑی علاقوں کو کلیئر کردیا گیا ہے جس میں بہادر بانڈہ، کنالہ، لیٹوسر، جولباسر، گوہل اور شیخان شامل ہیں۔‘
’ان پہاڑی علاقوں میں سرچ اینڈ سٹرائیک آپریشن کیا گیا، آپریشن میں ضلعی پولیس، ریپڈ رسپانس فورس، سپیشل کمبیٹ یونٹ، ڈسٹرکٹ سکیورٹی برانچ، ایلیٹ فورس اور بی ڈی یو نے حصہ لیا۔‘
پولیس ترجمان کے مطابق مٹہ کے اردگرد جنگجوؤں نے عارضی مورچے اور ٹھکانے بنائے ہوئے تھے جن کو مسمار کردیا گیا ہے۔  پولیس اور سکیورٹی فورسز نے یہ پہاڑی علاقہ مکمل کنٹرول میں لے لیا ہے۔
سوات پولیس نے سرچ اینڈ سٹرائیک آپریشن کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی ہے۔
انتظامیہ کا مؤقف 
کمشنر ملاکنڈ ڈویژن شوکت علی یوسفزئی کا بیان بھی سامنے آیا جس میں بتایا گیا ہے کہ ’سرچ آپریشن جاری ہے تاہم ایسی صورت حال پیدا نہیں ہوگی جس کی وجہ سے لوگوں کو گھر بار چھوڑنا پڑے گا۔‘

سوات میں طالبان کی موجودگی پر سخت عوامی ردعمل سامنے آیا تھا (فوٹو: سوات پولیس)

کیا طالبان افغانستان واپس چلے گئے ہیں؟
سوات کی موجودہ صورت حال سے متعلق  سوات کے حالات پر نظر رکھنے والے سینیئر صحافی فیاض ظفر نے اردو نیوز کو بتایا کہ تحصیل مٹہ کے پہاڑی علاقوں میں افغانستان سے آئے ہوئے طالبان کا مسلح گروہ واپس چلا گیا ہے جن کی تعداد 200 سے 250 کے قریب تھی۔
’عوامی ردعمل کی وجہ سے طالبان کو جانا پڑا کیونکہ واپس آنے والے زیادہ تر جنگجووں  کا تعلق سوات سے ہی تھا۔ طالبان نے پہاڑوں میں چوکیاں قائم کی تھیں جو اب خالی پڑی ہیں۔ پولیس نے اب پہاڑی علاقوں پر قبضہ  کرلیا ہے۔‘
صحافی فیاض ظفر کے مطابق طالبان کے گروہ کے چلے جانے سے اب حالات میں بہتری آنے کی امید ہے۔ 
مٹہ کے رہائشی نجیب اللہ کے مطابق ’پہاڑی علاقوں میں مسلح لوگ موجود تھے جہاں سے وہ قریبی آبادی پر نظر بھی رکھے ہوئے تھے، اب چونکہ بغیر مزاحمت کے پولیس وہاں تک پہنچ چکی ہے تو امید یہی کی جاسکتی ہے کہ  جنگجو وہاں سے چلے گئے ہوں گے  کیونکہ اس سے آگے سرحدی علاقہ ہے۔‘

پولیس ترجمان کے مطابق ’آپریشن کے بعد علاقے کو کلیئر کردیا گیا ہے‘ (فوٹو: سوات پولیس)

نجیب اللہ نے مطالبہ کیا کہ ان علاقوں پر پولیس اور سکیورٹی فورسز کی چوکیاں قائم کی جائیں تاکہ یہ گروہ دوبارہ نہ آسکیں۔ 
واضح رہے کہ سوات میں دہشت گردی کے پے درپے واقعات بالخصوص سکول وین فائرنگ کے بعد عوام کی جانب سے امن جلسوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے جن میں صوبائی وزرا اور وفاقی حکومت کے نمائندے بھی شرکت کر رہے ہیں۔

شیئر: