Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بینکوں کا ’عدم تعاون‘، صارفین کو گوشوارے جمع کروانے میں مشکلات

ٹیکس فائلر کے لیے ایف بی آر کی جانب سے متعدد رعایتیں دی گئی ہیں (فوٹو: ایف بی آر ٹوئٹر)
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے گذشتہ مالی سال کے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کی آخری تاریخ 30 نومبر مقرر کی گئی تھی جس کے بعد بدھ کے روز بینکوں میں صارفین کا گذشتہ سال کی بینک سٹیٹمنٹ حاصل کرنے کے لیے رش لگا رہا، تاہم کئی بینکوں میں عدم تعاون کے باعث صارفین مشکلات کا شکار ہیں۔
بدھ کی رات کو وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کی تاریخ میں مزید 15 روز کی توسیع کرنے کا اعلان کیا۔ 
اسلام آباد کے سیکٹر جی 13 میں بینک اسلامی سے اپنی بینک سٹیٹمنٹ لینے کے لیے آنے والے ایک صارف کا کہنا تھا ’اسے مینیجر کی طرف سے کہا گیا کہ آپ صرف اس برانچ سے سٹیٹمنٹ لے سکتے ہیں جہاں آپ کا اکاؤنٹ موجود ہے۔‘
صارف کا کہنا تھا کہ ’میرے کئی اکاؤنٹس تو کراچی میں ہیں اور میں اسلام آباد میں ملازمت کرتا ہوں، ایسے میں گوشوارے جمع کروانے کی آخری تاریخ کو کیا مجھے اس پالیسی کے تحت کراچی جانا پڑے گا؟‘
بینک سے اس پالیسی پر شکایت کرنے پر مینیجر نے انہیں متعلقہ فورمز پر شکایت کرنے کا کہا۔ مینیجر کے مطابق ’بینک نے کچھ دن پہلے پالیسی تبدیل کر کے اب متعلقہ برانچ سے رابطہ ضروری کر دیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس ڈیجیٹل دور میں جب کہ حکومت ہر چیز میں آئی ٹی کو فروغ دے رہی ہے، بینکوں کا یہ رویہ انتہائی حیرت انگیز اور تشویشناک ہے۔‘
ایک اور صارف نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’بینک کا عملہ عام طور پر صرف اسی صورت میں سٹیٹمنٹ دیتا ہے جب آپ کا اکاؤنٹ اسی برانچ میں ہو، تاہم اگر کوئی صارف سٹیٹ بینک کو شکایت لگانے کی دھمکی دے تو اس صورت میں اسے دوسری برانچ سے بھی بینک سٹیٹمنٹ دے دی جاتی ہے۔‘
سٹیٹ بینک کا موقف
اس حوالے سے رابطہ کرنے پر سٹیٹ بینک کے ترجمان عابد قمر نے بتایا کہ ’مرکزی بینک نے تمام کمرشل بینکوں کو ہدایت کر رکھی ہے کہ وہ اپنے صارفین کو بینک سٹیٹمنٹ ضرور دیں اور اس کے علاوہ بھی زیادہ سے زیادہ سہولیات دیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اسی وجہ سے کمرشل بینک ای میل پر بھی سٹیٹمنٹ دے دیتے ہیں اور موبائل ایپس کے ذریعے بھی اپلائی کیا جا سکتا ہے۔’
تاہم ترجمان سٹیٹ بینک کے مطابق ’ہر برانچ سے سٹیٹمنٹ دینا یا نہ دینا بینکوں کی سروس کا معاملہ ہے جو شاید سٹیٹ بینک کے دائرہ کار میں نہیں آتا اور اس پر مرکزی بینک متعلقہ براچ کو سزا نہیں دے سکتا۔‘

ترجمان سٹیٹ بینک کے مطابق ’اگر صارفین کو کسی بینک کی سروسز غیر معیاری لگیں تو وہ دوسرے بینکوں میں جا سکتے ہیں‘ (فائل فوٹو: سٹیٹ بینک)

اگر صارفین کو کسی بینک کی سروسز غیر معیاری معلوم ہوں تو وہ دوسرے بینکوں میں جا سکتے ہیں اس طرح مسابقتی ماحول میں بہتر سروسز والا بینک ہی کامیاب ہوتا ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی بینک سالانہ سٹیٹمنٹ دینے سے انکار کرے تو اس پر سٹیٹ بینک میں شکایت  کی جا سکتی ہے اور اس بینک کے خلاف ایکشن لیا جا سکتا تھا۔
انہوں نے کہ شکایت کی صورت میں صارف کو پہلے بینک ہی کے اعلی حکام کو آگاہ کرنا چاہیے اور اگر وہاں سے مدد نہ ملے تو سٹیٹ بینک سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرنے کی تاریخ میں ایک ماہ کی توسیع کی گئی تھی اور 30 نومبر کی ڈیڈ لائن مقرر کی گئی تھی۔  
پاکستان میں رہنے والا ہر ایک شخص چاہے تنخواہ دار ہو یا کاروباری، اس پر انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی شق نمبر 114 کے تحت انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانا لازمی ہے اور ٹیکس فائلر کے لیے ایف بی آر کی جانب سے متعدد رعایتیں دی گئی ہیں۔

شیئر: