لفظ ’coffin‘ قدیم فرانسیسی میں ’cofin‘ تھا (فوٹو: فلکر)
صبح دم دیکھا تو سارا باغ تھا گُل کی طرف
شمع کے تابوت پر رویا نہ پروانہ کوئی
اس شعر کی تشریح مقصود نہیں بلکہ مطلوب شعرِ مذکور میں وارد لفظ ’تابوت‘ ہے۔ تابوت ایک ’معرب‘ لفظ ہے۔ باالفاظ دیگر اپنی اصل میں یہ عربی نہیں ہے۔ رہی یہ بات کہ اس لفظ کی اصل کیا ہے تو اس پر بعد میں بات کرتے ہیں فی الوقت لفظ ’تابوت‘ کے لفظی و مجازی معنی کی وضاحت درپیش ہے۔
عربی زبان میں ’تابوت‘ کی جمع ’توابیت‘ آئی ہے، جب کہ معنی میں لکڑی کا صندوق اور رہٹ کا وہ ڈول داخل ہے جس کے ذریعہ کنویں سے پانی نکالا جاتا ہے۔
چوں کہ تابوت بمعنی ’صندوق‘ چیزوں کو محفوظ رکھنے کے کام آتا ہے سو اس رعایت سے عربی میں مجازاً سینہ بھی تابوت کی تعریف میں داخل ہے کہ اس میں بہت سے راز محفوظ ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ ’تابوت‘ کا اطلاق اُس مخصوص صندوق پر بھی ہوتا ہے جس میں مُردہ (لاش) رکھا جاتا ہے۔
اردو میں لفظ ’تابوت‘ کا عمومی اطلاق مردے تک محدود ہے۔ البتہ عربی کی رعایت سے راہ پانے والی تراکیب ’تابوت سکینہ‘ یا ’تابوت مُوسیٰ‘ میں یہ صندوق کے معنی میں برتا جاتا ہے۔ تاہم اس کے باوجود عام طور پر اردو میں ’تابوت‘ و ’صندوق‘ کے مفہوم میں فرق روا رکھا جاتا ہے۔ اس بات کو ’ذوالفقار عادل‘ کے اس شعر سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے:
کہیں صندوق ہی تابوت بن جائے نہ اک دن
حفاظت سے رکھی چیزوں کو پھیلانا پڑے گا
مسلمانانِ برصغیر میں تجہیز و تکفین میں ’تابوت‘ کا استعمال نہ ہونے کے سبب اس لفظ پر مبنی تراکیب و محاورات بھی محدود ہیں۔ تاہم ’تابوت میں آخری کیل ٹھوکنا‘ ایک مشہور محاورہ ہے۔
اردو کی بہ نسبت فارسی زبان میں لفظ ’تابوت‘ کی رعایت سے دسیوں تراکیب رائج ہیں جو تابوت کے کثرتِ استعمال پر دلالت کرتی ہیں۔ مثلاً تابوت پر رکھے جانے والے پھول اگر ’گُلِ تابوت‘ ہیں تو اس پر کی جانے والی گُل کاری ’نخلِ تابوت‘ کہلاتی ہے۔
ایسے ہی تابوت میں استعمال ہونے والی آرائشی و غیر آرائشی الحاقی اشیاء کو ’یراق تابوت‘ کہا جاتا ہے۔ پھر تابوت اٹھانا اگر ’تابوت کشی‘ ہے تو اس کو اٹھانے والے ’تابوت بردار‘ کہلاتے ہیں۔
فارسی میں تابوت کو ’صندوقِ مردہ‘ کے علاوہ عماری یعنی کجاوہ، ہودج یا محمل کے معنی میں بھی برتا جاتا ہے۔
اب اس سے قبل کے کہ آگے بڑھیں زیربحث لفظ کی رعایت سے کلاسیکی شاعر امام بخش ناسخ کا شعر ملاحظہ کریں:
دیا میرے جنازے کو جو کاندھا اس پری رُو نے
گماں ہے تختۂ تابوت پر تخت سلیماں کا
عربی اور اس کے تعلق سے فارسی و اردو میں جسے ’تابوت‘ کہتے ہیں وہ انگریزی میں ’coffin‘ اور ’coffin box‘ کہلاتا ہے۔ اب اگر انگریزی کے اس لفظ پر کوئی مردہ بھی نظر دوڑائے تو کفن پھاڑ کر بتائے کہ اس ’coffin‘ کی اصل لفظ ’کفن‘ ہے۔
ہمارے لیے کفن سے ’coffin‘ کو سمجھنا جتنا آسان ہے شاید مغربی ماہرین لسانیت کے لیے یہ اتنا سہل نہیں۔ ان کے مطابق چودہویں صدی عیسوی میں یہ لفظ قیمتی اشیاء محفوظ رکھنے والے باکس یا ٹرنک کے لیے برتا جاتا تھا۔
اب اگر قیمتی سامان والی بات کو پیشِ نظر رکھیں تو بات ’coffin‘ سے ’کوفر/coffer‘ تک پہنچ جاتی ہے، جس کے معنی میں ’مخزن‘ یعنی خزانہ رکھنے کا صندوق داخل ہے۔
لفظ ’coffin‘ قدیم فرانسیسی میں ’cofin‘ تھا، جب کہ ’ٹوکری‘ کے معنی میں یہ لفظ اطالوی میں ’cofano‘ اور ہسپانوی میں ’cuebano‘ ہے۔ ان تینوں زبانوں (فرانسیسی، اطالوی، ہسپانوی) میں یہ لفظ لاطینی کی راہ سے آیا ہے۔
ٹوکری اور ڈبے کے معنی کے ساتھ لاطینی میں یہ لفظ ’cophinus‘ ہے، جو یونانی کے ’kophinos‘ کی متبادل صورت ہے۔ یوں قدیم فرانسیسی کو چھوڑ کر یونانی لاطینی، اطالوی اور ہسپانوی میں یہ لفظ ’ٹوکری‘ کا مشترکہ مفہوم لیے ہوئے ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ انگریزی ’coffin‘ سے یونانی ’kophinos‘ تک سفر کرنے والے ماہرین لسانیات اس لفظ کو ’uncertain origin‘ الفاظ کے زمرے میں شامل کرتے اور اس لفظ کی اصل سے لاعلمی ظاہر کرتے ہیں۔
اس باب میں اگر لسانی تعصب سے کام نہ بھی لیا گیا ہو تو بھی تساہل ضرور برتا گیا ہے۔ اگر یورپ پر عربوں اور عربی زبان و تہذیب کے اثرات کا جائزہ لیا جاتا تو ممکنہ طور پر یورپی زبانوں میں رائج سینکڑوں عربی الفاظ کے ساتھ اس لفظ کا سُراغ بھی مل جاتا۔
’تابوت‘ کی بحث کے آغاز میں واضح کیا تھا کہ یہ معرب لفظ ہے، اس قیاس کی بنیاد لفظ ’תֵבָה/ توّاہ‘ ہے، جو عبرانی زبان میں ’صندوق‘ کو کہتے ہیں، پھر اگر اس لفظ کی آواز اور اطلاق پر غور کریں تو اس ’توّاہ‘ کو ہندی کے ’ڈبّہ‘ کا ہم آواز و ہم معنی پائیں گے۔
یہاں یہ سوال ہوسکتا ہے کہ ’عبرانی‘ سامی زبانوں کے گروہ سے تعلق رکھتی ہے جب کہ ’ہندی‘ زبانوں کے ہند یورپی گروہ کی رکن ہے تو ایسے میں اشتراک الفاظ کیونکر ممکن ہے؟
عرض ہے کہ بے شک عبرانی اور ہندی زبانوں کی دو مختلف دنیاؤں سے تعلق رکھتی ہیں تاہم مختلف المزاج زبانوں میں بعض الفاظ کا اشتراک سامنے کی بات ہے۔ اس حوالے سے ہم لفظ ’فردوس‘ کی نشاندہی کر چکے ہیں جو لہجوں کے فرق کے ساتھ دنیا کی تمام نہیں تو بیشتر علمی زبانوں میں موجود ہے۔
اس کے علاوہ ایک مثال سنسکرت کا لفظ ’سپت‘ بھی ہے، جو عبرانی و عربی میں ’سبت‘ اور فارسی میں’ہفت‘ ہے، جب کہ ان تینوں لفظوں کے معنی ’سات‘ کے ہیں۔
اگر لفظ ’توّاہ‘ اور ’ڈبّہ‘ کے درمیان صوتی و معنوی اشتراک کو اتفاق قرار دیا جائے تو پھر لفظ ’جعبہ‘ کے بارے میں کیا خیال ہے، جو فارسی میں صندوق، بستہ اور ترکش کے معنی دیتا ہے۔
جب کہ ہم یہ بھی جانتے ہیں ’دال / ڈال‘ کی آواز اکثر صورتوں میں ’جیم‘ سے بدل جاتی ہے، آوازوں کی اس تبدیلی کو انگریزی کے ’education‘ سے سمجھا جا سکتا ہے، جس میں ’D‘ کا تلفظ ’J‘ کیا جاتا ہے۔ اب اگر یہ تبدیلی پیش نظر رہے تو ’ڈبّہ‘ کے ’جعبہ‘ بننے کی راہ میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہتی۔