Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’نیب ترامیم اس اسمبلی نے منظور کیں جو مکمل ہی نہیں‘

چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمان کا کام ہے کہ سسٹم میں بہتری کے لیے قانون بنائے۔ (فوٹو: سپریم کورٹ)
پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ نیب ترامیم اس اسمبلی نے منظور کیں جو مکمل ہی نہیں۔
منگل کو نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’اس نکتے پر کوئی قانون نہیں ملا کہ نامکمل اسمبلی قانون سازی کرسکتی ہے یا نہیں۔‘
’سیاسی حکمت عملی کے باعث آدھی سے زیادہ اسمبلی نے بائیکاٹ کر رکھا ہے۔‘
چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ ’نیب قانون کے غلط استعمال سے کتنے لوگوں کے کاروبار تباہ ہوچکے ہیں جب کہ نیب ترامیم سے فائدہ صرف ترمیم کرنے والوں کو ہی ہوا ہے۔‘
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایگزیکٹیو اپنا کام نہ کرے تو لوگ عدالتوں کے پاس ہی آتے ہیں۔ 
چیف جسٹس نے کہا کہ ’عدالتی فیصلوں کے باوجود کرپشن ختم نہیں ہوسکی، مسئلہ صرف کرپشن کا نہیں سسٹم میں موجود خامیوں کا بھی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پارلیمان کا کام ہے کہ سسٹم میں بہتری کے لیے قانون بنائے اور عمل بھی کرائے۔‘
جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ ’صوبے میں پانچ ماہ بعد آئی جی اور تین ماہ میں ایس ایچ او بدل جاتا ہے۔ ایگزیکٹیو فیصلے کرتے وقت قانون پرعمل نہیں کیا جاتا۔‘
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’ماضی میں ریکوڈک اور سٹیل مل کے فیصلے عدالت نے اچھی نیت سے کیے۔ حکومت سسٹم کی کمزوری کے باعث منصوبوں میں کرپشن پکڑ نہیں سکی۔ کرپشن پر کسی صورت معافی نہیں ہونی چاہیے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’ملک میں بہت سے معاملات میں بہتری بھی آئی ہے۔ خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ پاکستان میں میڈیا آزاد ہے اور سچ سامنے لاتا ہے۔‘
دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’کرپشن کی رینکنگ میں پاکستان 80 نمبر پر ہے جو نیب ترامیم سے پہلے تھا۔‘
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ ’نیب ترامیم کے بعد اب جو رینکنگ جاری ہوگی اس میں پاکستان یقیناً سو نمبر نیچے جا چکا ہوگا۔‘
’جب سسٹم تباہ ہو رہا ہو تو عدلیہ مداخلت کرتی ہے۔ عدالت کس اختیار کے تحت نیب ترامیم کو مفادات کے ٹکراؤ پر کالعدم قرار دے سکتی ہے؟‘
خواجہ حارث نے کہا کہ ’خود کو فائدہ پہنچانے کے لیے کی گئی قانون سازی کے لیے ریگولیٹری کیپچر کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔‘
چیف جسٹس نے پوچھا کہ ’کیا پھر ہم حالیہ نیب ترامیم کو پارلیمنٹری کیپچر کہیں گے؟‘ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ پارلیمنٹری کیپچر کسی اور معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ 

شیئر: