سپریم کورٹ نے ریکوڈک کے نئے معاہدے کو قانونی قرار دے دیا
سپریم کورٹ نے ریکوڈک کے نئے معاہدے کو قانونی قرار دے دیا
جمعہ 9 دسمبر 2022 10:51
بلوچستان کابینہ نے مارچ میں ریکوڈک منصوبے پر نئے معاہدے کی منظوری دی تھی: فائل فوٹو اے ایف پی
پاکستان کی سپریم کورٹ نے بلوچستان میں معدنیات کی تلاش کے حوالے سے ریکوڈک کے نئے معاہدے کو قانونی قرار دے دیا۔
جمعے کو صدر مملکت کی جانب سے بھیجے گئے ریفرنس پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی نے تیرہ صفحات پر مشتمل مختصر فیصلہ سنایا۔
عدالت کے مطابق اس ریفرنس میں صدر مملکت نے دو سوالات پوچھے تھے۔ آئین پاکستان خلاف قانون قومی اثاثوں کے معاہدے کی اجازت نہیں دیتا۔
عدالت نے قرار دیا کہ صوبے معدنیات سے متعلق قوانین میں تبدیلی کر سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے مطابق بین الاقوامی ماہرین نے عدالت کی معاونت کی۔ بلوچستان اسمبلی کو بھی معاہدے سے متعلق بریفنگ دی گئی۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ نئے ریکوڈک معاہدے میں کوئی غیر قانونی بات نہیں اور ریکوڈک معاہدہ ماحولیاتی اعتبار سے بھی درست ہے۔
اس سے قبل سپریم کورٹ نے 2013 میں سابق صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں بیرک گولڈ کارپوریشن اور چلی کی فرم اینٹوفاگاسٹا کے ساتھ دستخط شدہ معاہدے ریکوڈک ڈیولپمنٹ لیز کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔
تاہم کمپنی نے بلوچستان حکومت کی جانب سے معاہدے کی منسوخی کے خلاف سرمایہ کاری تنازعات کے تصفیے کے بین الاقوامی مرکز (آئی سی ایس آئی ڈی) سے رجوع کیا تھا جس پر جولائی 2019 میں آئی سی ایس آئی ڈی ٹریبونل نے آسٹریلین کمپنی کو کان کنی کی لیز دینے سے انکار پر پاکستان کو 5 ارب 97 کروڑ ڈالر ہرجانے کی ادائیگی کا حکم دیا تھا۔
جرمانے اور قانونی مشکلات سے بچنے کے لیے نیا معاہدہ 21 مارچ 2022 کو پاکستان تحریک انصاف کے دور میں کیا گیا تھا۔
حکومت کے غیر ملکی فرم بیرک گولڈ کارپوریشن کے ساتھ عدالت سے باہر معاہدے کے تحت فرم نے 11 ارب ڈالر کے جرمانہ معاف کرنے اور2011 سے رکے ہوئے کان کنی کے منصوبے کو بحال کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
تاہم بیرک گولڈ کارپوریشن کے صدر اور چیف ایگزیکٹو افسر مارک بیرسٹو نے کہا تھا کہ معاہدے کی پائیداری کے لیے ضروری ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان اس معاہدے کا جائزہ لے اور پارلیمنٹ قانون سازی کے ذریعے اس معاہدے کی توثیق کرے۔
جس کے بعد اکتوبر میں وزیراعظم شہباز شریف کی سفارش پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ریکوڈک ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کر دیا تھا۔
صدر عارف علوی کی جانب سے بھیجے گئے ریکوڈک ریفرنس میں عدالت عظمیٰ سے غیر ملکی کمپنی کے ساتھ معاہدے سے متعلق رائے لی گئی تھی۔
اس وقت ایوان صدر سے جاری بیان کے مطابق صدر مملکت ڈاکٹرعارف علوی نے وزیر اعظم شہباز شریف کی تجویز پر ریکوڈک پروجیکٹ پر 1973 کے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت ریفرنس دائر کرنے کی سمری کی منظوری دی تھی۔
ریفرنس میں فارن انویسٹمنٹ (پروٹیکشن اینڈ پروموشن) بل 2022 کی منظوری کے حوالے سے بھی وضاحت طلب کی گئی تھی۔
ریکوڈک گولڈ منصوبے پر پیداوار 2027 تک متوقع ہے۔ اس منصوبے پر کمپنی 7 ارب ڈالر کی سرمایہ کری کرے گی جبکہ ریکوڈک ایڈوانس رائلٹی کی مد میں حکومت بلوچستان کو پہلے سال کے اختتام تک 50 لاکھ ڈالر ملیں گے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کیا کہا گیا ہے
جمعے کو صدر مملکت کی جانب سے بھیجے گئے ریفرنس پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی نے تیرہ صفحات پر مشتمل مختصر فیصلہ سنایا۔
عدالت کے مطابق اس ریفرنس میں صدر مملکت نے دو سوالات پوچھے تھے۔ آئین پاکستان خلاف قانون قومی اثاثوں کے معاہدے کی اجازت نہیں دیتا۔
عدالت نے قرار دیا کہ صوبے معدنیات سے متعلق قوانین میں تبدیلی کر سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے مطابق بین الاقوامی ماہرین نے عدالت کی معاونت کی۔ بلوچستان اسمبلی کو بھی معاہدے سے متعلق بریفنگ دی گئی
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ ریکوڈک معاہدے میں کوئی غیر قانونی بات نہیں اور ریکوڈک معاہدہ ماحولیاتی اعتبار سے بھی درست ہے۔
ریکوڈک معاہدے کے مطابق زیادہ تر لیبر پاکستان کی ہوگی۔ فیصلے کے مطابق ریکوڈک معاہدہ فرد واحد کے لیے نہیں پاکستان کے لیے ہے۔
عدالت کے مطابق یہ تمام ججز کا متفقہ فیصلہ ہے تاہم بنچ میں شامل جسٹس یحیٰی خان آفریدی نے صدارتی ریفرنس کے پہلے سوال پر رائے دینے سے معذرت کی ہے۔ پہلا سوال نیا ریکوڈک معاہدہ عوامی مفاد کا ہونے یا نہ ہونے سے متعلق ہے۔
سپریم کورٹ کے مطابق بیرک گولڈ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ لیبر قوانین پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ بیرک گولڈ نے سماجی ذمہ داری نبھانے کی بھی یقین دہانی کرائی ہے
فیصلے کے مطابق فارن انویسٹمنٹ بل خصوصی طور پر صرف بیرک گولڈ کے لیے نہیں ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری بل ہر اس کمپنی کیلئے ہے جو 500 ملین ڈالر سے زیادہ سرمایہ کاری کرے گی۔