ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے ارنا کے مطابق آسکر ایوارڈ جیتنے والی فلم ’دی سیلزمین‘ میں کام کرنے والی اداکارہ کو انسٹاگرام پر کی گئی ایک پوسٹ کے ایک ہفتے بعد حراست میں لیا گیا۔
ترانہ علیدوستی نے انسٹاگرام پوسٹ میں اُس شخص سے یکجہتی کا اظہار کیا تھا جس کو ایرانی حکام نے احتجاج میں حصہ لینے پر گزشتہ ہفتے پھانسی دی تھی۔
ریاستی میڈیا کے ٹیلی گرام چینل پر جاری کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ترانہ علیدوستی کو اس وجہ سے گرفتار کیا گیا کہ ’وہ اپنے دعوے کے حوالے سے کوئی ثبوت مہیا کرنے میں ناکام رہیں۔‘
اداکارہ نے اپنی پوسٹ میں لکھا تھا کہ ’اُس کا نام محسن شیکاری تھا۔ ہر وہ بین الاقوامی تنظیم جو اس خون خرابے کو دیکھ کر اقدام نہیں کرتی وہ انسانیت کے لیے ایک دھبہ ہے۔‘
حکام نے محسن شیکاری کو نو دسمبر کو پھانسی دے دی تھی۔ اُن پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ تہران کی ایک گلی کو احتجاج کے دوران بند کرنے اور سکیورٹی فورس کے ایک اہلکار پر چھرے سے حملہ کرنے میں ملوث تھے۔
ایران میں رواں سال ستمبر کے وسط سے شروع ہونے والے احتجاج کی لہر میں تاحال کوئی کمی نہیں دیکھی گئی۔ یہ احتجاج ایک 22 سالہ طالبہ مہسا امینی کی موت کے بعد شروع ہوا تھا جن کو مکمل حجاب نہ لینے پر پولیس نے حراست میں لیا تھا۔
حالیہ احتجاج ایران کی مذہبی حکومت کے لیے ایک بڑے چیلنج کے طور پر سامنے آیا تھا جو سنہ 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے اقتدار میں ہے۔
قبل ازیں حکام نے دو اداکاراؤں کتایون ریاحی اور ہنگامہ قاضیانی کو بھی مظاہرین کی حمایت کے الزام میں حراست میں لیا تھا تاہم بعد میں رہا کر دیا گیا۔
ایران کی انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ستمبر سے جاری احتجاج کے دوران اب تک کم از کم 495 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اسی طرح 18 ہزار سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔