Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گوادر میں ’حق دو تحریک‘ کا احتجاج ، ایک پولیس اہلکار ہلاک متعدد زخمی

بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں ’حق دو تحریک‘ کا احتجاج جاری ہے۔ پولیس اور مظاہرین دوسرے روز بھی آمنے سامنے رہے، شیلنگ اور پتھراؤ کا سلسلہ جاری رہا جس کی وجہ سے صورتحال بدستور کشیدہ ہے۔
 وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو واقعے کی مذمت کرتے ہوئے حکام سے رپورٹ طلب کر لی ہے جبکہ وزیر داخلہ ضیا لانگو نے کہا ہے کہ ’حق دو تحریک کے سربراہ کے خلاف ایف آئی آر کاٹی جائے۔‘
وزیراعلیٰ نے ملزمان کی گرفتاری کے لیے خصوصی ٹیم تشکیل دینے کا حکم دیا ہے۔
دوسری جانب صوبائی حکومت کے ترجمان کا دعویٰ ہے کہ مشتعل مظاہرین کی فائرنگ سے ایک پولیس اہلکار کی موت ہوگئی ہے۔ پولیس نے ’حق دو تحریک‘ کے مزید کم از کم 27 کارکنوں کو گرفتار کرلیا۔
گوادر میں موبائل فون نیٹ ورک اور انٹرنیٹ سروس اور ساحلی شہر کو ملک کے باقی حصوں سے ملانے والی شاہراہیں بھی بند ہیں۔ گوادر کے علاقے اور ماڑہ میں چھٹیوں پر اہلِ خانہ کے ساتھ موجود چیف جسٹس آف پاکستان بھی احتجاج کے باعث پھنس گئے جس کے بعد انہیں بلوچستان حکومت نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے کراچی پہنچایا۔
گوادر کے مقامی صحافیوں، پولیس اور سرکاری حکام نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ اتوار اور سوموار کی درمیانی شب گوادر کے پورٹ روڈ پر دو ماہ سے دھرنے پر بیٹھے گوادر کو ’حق دو تحریک‘ کے مظاہرین کے خلاف پولیس کے کریک ڈاؤن کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی اب تک برقرار ہے۔
قریبی اضلاع اور کوئٹہ سے پولیس کے مزید دستے گوادر پہنچا دیے گئے ہیں جبکہ لیویز اور ایف سی کی بھاری نفری بھی طلب کرلی گئی ہے لیکن پولیس، لیویز اور ایف سی کے اہلکار مل کر بھی مظاہرین کو مکمل طور پر منتشر نہیں کرسکے ہیں۔

’شیلنگ اور پتھراؤ کے باعث متعدد شہری اور  پولیس اہلکار زخمی ہوئے‘

مقامی صحافی صداقت بلوچ نے بتایا کہ منگل کو پورا دن مظاہرین اور پولیس کے درمیان آنکھ مچولی کا سلسلہ جاری رہا۔
ہزاروں مظاہرین جن میں خواتین بھی شامل تھیں نے ڈپٹی کمشنر کی سرکاری رہائش گاہ کا گھیراؤ کیا۔ گھر کی حفاظت پر تعینات لیویز اہلکاروں نے پولیس کو مدد کے لیے بلایا جس کے بعد مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ اور ہوائی فائرنگ کی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ مظاہرین نے بھی پولیس پر پتھراؤ کیا۔ پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم کے نتیجے میں نجی ہسپتال کے باہر کھڑی ڈاکٹروں اور شہریوں کی گاڑیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔
سوموار کو مظاہرین نے ڈی آئی جی پولیس کے دفتر کے مرکزی دروازے کو نذر آتش کر دیا تھا۔ پولیس نے مظاہرین پر پٹرول بم استعمال کرنے کا الزام لگایا۔

وزیر داخلہ بلوچستان ضیا لانگو نے کہا ہے کہ ’حق دو تحریک کے سربراہ کے خلاف ایف آئی آر کاٹی جائے۔‘ (فائل فوٹو: اے پی پی)

کوئٹہ سے گوادر کی صورتحال کی نگرانی کرنے والے پولیس حکام نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ گوادر میں دکانیں، کاروباری مراکز بند ہیں۔ پولیس نے گوادر سے تقریباً 30 کلومیٹر دور سربندر پر سڑک بند کرنے والے میں ملوث ’حق دو تحریک‘ کے 22 کارکنوں اور ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے باہر احتجاج کرنے والے 5 مظاہرین کو گرفتار کیا ہے۔ ایک روز قبل بھی 26 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔
تاہم ’حق دو تحریک‘ کی قیادت کا دعویٰ ہے کہ گرفتار ہونے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہیں۔ تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان کا کہنا ہے کہ حق دو تحریک کے سینکڑوں کارکن اور 40 سے زائد رہنما گرفتاری کے بعد سے لاپتا ہیں۔
مقامی صحافی صداقت بلوچ کے مطابق گوادر میں پورٹ روڈ، میرین ڈرائیور اور دیگر علاقوں میں بڑی تعداد میں مظاہرین سڑکوں پر موجود ہیں۔ پولیس نے درجنوں مظاہرین کو گرفتار کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ شیلنگ اور پتھراؤ کے باعث متعدد شہری اور  پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔

مولانا مذموم سیاسی مقصد کے حصول کے لیے پرتشدد راہ اپنا رہے ہیں: بلوچستان پولیس

بلوچستان پولیس کے ترجمان نے منگل کی شام کو ایک بیان میں بتایا ہے کہ گوادر میں سید ہاشمی چوک کے قریب دھرنے کے مشتعل ہجوم نے ان ہی کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کی۔ ترجمان کے مطابق مشتعل جتھے کی طرف سے چلائی گئی گولی گردن میں لگنے کے باعث پولیس کانسٹیبل یاسر کی موت ہوئی۔
سرکاری بیان کے مطابق 21سالہ یاسر کا تعلق ڈیرہ مراد جمالی سے تھا جس نے ایک سال پہلے بلوچستان پولیس میں شمولیت اختیار کی تھی۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان نے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس اہلکار کے قتل کا مقدمہ مولانا ہدایت الرحمان کے خلاف درج کیا جائے گا۔
اپنے بیان میں صوبائی حکومت کے ترجمان نے الزام لگایا کہ پولیس اہلکار پر مشتعل مظاہرین کی جانب سے براہ راست فائرنگ کی گئی۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ مظاہرین کی اشتعال انگیزی کا مقصد پرامن ماحول اور مذاکرات کی فضاء کو سبوتاژ کرنا ہے۔ ایسے واقعات نا قابل برداشت ہیں جس کی تمام تر ذمہ داری مولانا ہدایت الرحمان اور اس کے حواریوں پر عائد ہوتی ہے۔
چیف سیکریٹری بلوچستان کے مطابق مظاہرین نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا اور نہ صرف پولیس سٹیشن کو جلایا بلکہ پولیس اہلکار کو قتل بھی کیا-
بلوچستان پولیس ترجمان نے بھی مولانا ہدایت الرحمان کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ ’مولانا اپنے مذموم سیاسی مقصد کے حصول کے لیے پرتشدد راہ اپنا رہے ہیں حتیٰ کہ اپنی حفاظت پر مامور محافظوں کو گولی کا نشانہ بنا رہے ہیں۔‘
ترجمان کے مطابق آئی جی پولیس بلوچستان عبدالخالق شیخ نے پولیس اہلکاروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنی پوری طاقت کے باوجود کسی قسم کے آتشیں اسلحے کے استعمال سے گریز کریں۔
مقامی صحافی صداقت بلوچ نے بتایا کہ گوادر کی طرح ضلعے کے باقی شہروں سربندن، پسنی اور اورماڑہ میں صورت حال کشیدہ ہے۔ پسنی اور اورماڑہ کے مقام پر مظاہرین نے گوادر کو کراچی سے ملانے والی مکران کوسٹل ہائی وے کو بند کر رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے دو دنوں سے مسافروں کی بڑی تعداد پھنسی ہوئی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ تربت میں سڑک بند کرنے والے ’حق دو تحریک‘ کے رہنماؤں کے خلاف بھی کارروائی کی گئی اور ان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے۔

مولانا ہدایت الرحمان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ اور صوبائی وزرا بے اختیار ہیں (فائل فوٹو: سکرین گریب)

یاد رہے کہ گوادر میں ’حق دو تحریک‘ کی جانب سے27اکتوبر سے گوادر میں مطالبات کے حق میں پورٹ روڈ پر دھرنا دیا جا رہا تھا۔ دو ماہ سے دھرنے پر بیٹھے مظاہرین بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں بڑی کشتیوں اور ممنوعہ جالوں کے ذریعے غیرقانونی ماہی گیری روکنے، لاپتا افراد کی بازیابی، ایران کے ساتھ مقامی سطح کی تجارت آسان کرنے، شراب اور منشیات کے اڈوں کے خاتمے جیسے مطالبات کررہے تھے۔
سنیچر کو بلوچستان کے وزیر داخلہ ضیاء اللہ لانگو کی سربراہی میں صوبائی حکومت نے حق دو تحریک کے ساتھ مظاہرین کئے تاہم مذاکرات ناکام ہوگئے جس کے بعد پولیس نے مظاہرین کے خلاف رات گئے کریک ڈاؤن کیا۔
صوبائی وزیر داخلہ ضیاء اللہ لانگو کا کہنا تھا کہ مظاہرین نے اہم سرکاری اداروں اور حساس مقامات  کے راستے پر دھرنا دے رکھا تھا اور مزید پیش قدمی کر رہے تھے جس کی وجہ سے پولیس کو کارروائی کرنا پڑی۔
وزیر داخلہ نے حالات کی ذمہ داری ’حق دو تحریک‘ کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان پر عائد کی۔

خواتین، بزرگوں اور نوجوانوں پر بدترین تشدد کیا گیا: مولانا ہدایت الرحمان

مولانا ہدایت الرحمان نے ضیاء اللہ لانگو کے بیان کے جواب میں ٹویٹر پر اپنے ایک ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ گوادر میں حق دو تحریک کے پرامن احتجاج کو طاقت کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ خواتین، بزرگوں اور نوجوانوں پر بدترین تشدد کیا گیا۔
مولانا ہدایت الرحمان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ اور صوبائی وزرا بے اختیار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیرداخلہ کہہ رہے ہیں گوادر میں حالات قابو میں ہیں تو پھر موبائل فون نیٹ ورک اور سوشل میڈیا کو کیوں بند کیا گیا ہے؟ یہ بند کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ حکومت اپنے سیاہ کرتوتوں کو چھپانا چاہتی ہے۔ وزیرداخلہ جھوٹ بول کر قوم کو گمراہ کر رہے ہیں۔
مولانا ہدایت الرحمان کا کہنا تھا کہ ’مظاہرین کی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں جلائی گئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم پرامن طریقے سے اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔

شیئر: