بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں ’حق دو تحریک‘ کا احتجاج جاری ہے۔ پولیس اور مظاہرین دوسرے روز بھی آمنے سامنے رہے، شیلنگ اور پتھراؤ کا سلسلہ جاری رہا جس کی وجہ سے صورتحال بدستور کشیدہ ہے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو واقعے کی مذمت کرتے ہوئے حکام سے رپورٹ طلب کر لی ہے جبکہ وزیر داخلہ ضیا لانگو نے کہا ہے کہ ’حق دو تحریک کے سربراہ کے خلاف ایف آئی آر کاٹی جائے۔‘
مزید پڑھیں
-
بلوچستان کے شہر گوادر میں ’حق دو تحریک‘ کا ایک بار پھر دھرناNode ID: 715731
-
گوادر میں ’حق دو تحریک‘ کے خلاف کریک ڈاؤن، 20 سے زائد گرفتارNode ID: 728986
وزیراعلیٰ نے ملزمان کی گرفتاری کے لیے خصوصی ٹیم تشکیل دینے کا حکم دیا ہے۔
دوسری جانب صوبائی حکومت کے ترجمان کا دعویٰ ہے کہ مشتعل مظاہرین کی فائرنگ سے ایک پولیس اہلکار کی موت ہوگئی ہے۔ پولیس نے ’حق دو تحریک‘ کے مزید کم از کم 27 کارکنوں کو گرفتار کرلیا۔
گوادر میں موبائل فون نیٹ ورک اور انٹرنیٹ سروس اور ساحلی شہر کو ملک کے باقی حصوں سے ملانے والی شاہراہیں بھی بند ہیں۔ گوادر کے علاقے اور ماڑہ میں چھٹیوں پر اہلِ خانہ کے ساتھ موجود چیف جسٹس آف پاکستان بھی احتجاج کے باعث پھنس گئے جس کے بعد انہیں بلوچستان حکومت نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے کراچی پہنچایا۔
گوادر کے مقامی صحافیوں، پولیس اور سرکاری حکام نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ اتوار اور سوموار کی درمیانی شب گوادر کے پورٹ روڈ پر دو ماہ سے دھرنے پر بیٹھے گوادر کو ’حق دو تحریک‘ کے مظاہرین کے خلاف پولیس کے کریک ڈاؤن کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی اب تک برقرار ہے۔
قریبی اضلاع اور کوئٹہ سے پولیس کے مزید دستے گوادر پہنچا دیے گئے ہیں جبکہ لیویز اور ایف سی کی بھاری نفری بھی طلب کرلی گئی ہے لیکن پولیس، لیویز اور ایف سی کے اہلکار مل کر بھی مظاہرین کو مکمل طور پر منتشر نہیں کرسکے ہیں۔
’شیلنگ اور پتھراؤ کے باعث متعدد شہری اور پولیس اہلکار زخمی ہوئے‘
مقامی صحافی صداقت بلوچ نے بتایا کہ منگل کو پورا دن مظاہرین اور پولیس کے درمیان آنکھ مچولی کا سلسلہ جاری رہا۔
ہزاروں مظاہرین جن میں خواتین بھی شامل تھیں نے ڈپٹی کمشنر کی سرکاری رہائش گاہ کا گھیراؤ کیا۔ گھر کی حفاظت پر تعینات لیویز اہلکاروں نے پولیس کو مدد کے لیے بلایا جس کے بعد مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ اور ہوائی فائرنگ کی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ مظاہرین نے بھی پولیس پر پتھراؤ کیا۔ پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم کے نتیجے میں نجی ہسپتال کے باہر کھڑی ڈاکٹروں اور شہریوں کی گاڑیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔
سوموار کو مظاہرین نے ڈی آئی جی پولیس کے دفتر کے مرکزی دروازے کو نذر آتش کر دیا تھا۔ پولیس نے مظاہرین پر پٹرول بم استعمال کرنے کا الزام لگایا۔
کوئٹہ سے گوادر کی صورتحال کی نگرانی کرنے والے پولیس حکام نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ گوادر میں دکانیں، کاروباری مراکز بند ہیں۔ پولیس نے گوادر سے تقریباً 30 کلومیٹر دور سربندر پر سڑک بند کرنے والے میں ملوث ’حق دو تحریک‘ کے 22 کارکنوں اور ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے باہر احتجاج کرنے والے 5 مظاہرین کو گرفتار کیا ہے۔ ایک روز قبل بھی 26 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔
تاہم ’حق دو تحریک‘ کی قیادت کا دعویٰ ہے کہ گرفتار ہونے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہیں۔ تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان کا کہنا ہے کہ حق دو تحریک کے سینکڑوں کارکن اور 40 سے زائد رہنما گرفتاری کے بعد سے لاپتا ہیں۔
مقامی صحافی صداقت بلوچ کے مطابق گوادر میں پورٹ روڈ، میرین ڈرائیور اور دیگر علاقوں میں بڑی تعداد میں مظاہرین سڑکوں پر موجود ہیں۔ پولیس نے درجنوں مظاہرین کو گرفتار کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ شیلنگ اور پتھراؤ کے باعث متعدد شہری اور پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔
مولانا مذموم سیاسی مقصد کے حصول کے لیے پرتشدد راہ اپنا رہے ہیں: بلوچستان پولیس
بلوچستان پولیس کے ترجمان نے منگل کی شام کو ایک بیان میں بتایا ہے کہ گوادر میں سید ہاشمی چوک کے قریب دھرنے کے مشتعل ہجوم نے ان ہی کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کی۔ ترجمان کے مطابق مشتعل جتھے کی طرف سے چلائی گئی گولی گردن میں لگنے کے باعث پولیس کانسٹیبل یاسر کی موت ہوئی۔
سرکاری بیان کے مطابق 21سالہ یاسر کا تعلق ڈیرہ مراد جمالی سے تھا جس نے ایک سال پہلے بلوچستان پولیس میں شمولیت اختیار کی تھی۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان نے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس اہلکار کے قتل کا مقدمہ مولانا ہدایت الرحمان کے خلاف درج کیا جائے گا۔
اپنے بیان میں صوبائی حکومت کے ترجمان نے الزام لگایا کہ پولیس اہلکار پر مشتعل مظاہرین کی جانب سے براہ راست فائرنگ کی گئی۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ مظاہرین کی اشتعال انگیزی کا مقصد پرامن ماحول اور مذاکرات کی فضاء کو سبوتاژ کرنا ہے۔ ایسے واقعات نا قابل برداشت ہیں جس کی تمام تر ذمہ داری مولانا ہدایت الرحمان اور اس کے حواریوں پر عائد ہوتی ہے۔
چیف سیکریٹری بلوچستان کے مطابق مظاہرین نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا اور نہ صرف پولیس سٹیشن کو جلایا بلکہ پولیس اہلکار کو قتل بھی کیا-
Extremely unfortunate news from Gwadar . Constable Yasir just embraced martyrdom. Protesters have taken law in their hands and not only burnt police station but also assassinated police man. Action will be taken as per law pic.twitter.com/xZACrYjzsR
— Chief Secretary Balochistan (@cs_balochistan) December 27, 2022