Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گوادر میں ’حق دو تحریک‘ کے خلاف کریک ڈاؤن، 20 سے زائد گرفتار

بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں پولیس نے ’حق دو تحریک‘ کے 20 سے زائد کارکنان کو حراست میں لے لیا ہے جبکہ تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان کو گرفتار کرنے کی کوشش ناکام ہو گئی۔
گوادر میں پولیس نے مذاکرات کی ناکامی کے بعد اتوار اور پیر کی درمیانی شب اچانک ’حق دو تحریک‘ کے احتجاجی دھرنے کے مقام پر پہنچ کر ٹینٹ اُکھاڑ دیے اور مرکزی رہنماء حسین واڈیلہ سمیت متعدد رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کر لیا۔
پولیس کے کریک ڈاؤن کے بعد کارکنان سڑکوں پر نکل آئے اور اس دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم کی بھی اطلاعات موصول ہوئیں۔
’حق دو تحریک‘ کی جانب سے اگرچہ گذشتہ دو ماہ سے احتجاج کیا جا رہا ہے تاہم حکومت پر دباؤ اُس وقت بڑھا جب مظاہرین نے گوادر پورٹ کو جانے والے تمام راستے بند کر دیے۔ 
حکومت نے کارروائی سے قبل مذاکرات کے ذریعے احتجاج ختم کرانے کوششیں بھی کیں جو بےسود رہیں۔
گوادر کے صحافی صداقت بلوچ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’رات گئے پولیس کی کارروائی کے بعد صبح ہوتے ہی ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے جن میں ایک بڑی تعداد خواتین کی بھی تھی۔ مظاہرین نے میرین ڈرائیو پر مارچ کیا، سربندن کراس کے مقام پر خواتین نے مکران کوسٹل ہائی وے پر دھرنا دے کر سڑک بند کر دی ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ مظاہرین نے ڈی آئی جی پولیس کے دفتر پر پتھراؤ کیا اور گیٹ کو نذرِ آتش کر دیا ہے۔

پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم کی بھی اطلاعات موصول ہوئیں۔ (فوٹو:حق دو تحریک ٹوئٹر)

کوئٹہ میں موجود پولیس اور محکمہ داخلہ کے سینیئر حکام نے ارود نیوز کو بتایا کہ گوادر کے مرکزی شہر کے ساتھ ساتھ اورماڑہ، پسنی، سربندن سمیت گوادرکے دوسرے علاقوں میں بھی مظاہرین نے دُکانیں اور شاہراہیں بند کر دی ہیں۔
اورماڑہ میں زیروپوائنٹ کے مقام پر گوادر کو کراچی سے ملانے والی مکران کوسٹل ہائی وے اورپسنی کے مقام پر بھی مرکزی شاہراہ کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔
گزشتہ روز وزیر داخلہ بلوچستان ضیاء اللہ لانگو کی سربراہی میں حکومتی وفد مذاکرات کے لیے گوادر پہنچا تھا تاہم مولانا ہدایت الرحمان نے وفد سے ملنے سے انکار کر دیا۔ مظاہرین اور صوبائی حکومت کے درمیان مذاکرات بے نتیجہ ختم ہونے کے بعد پولیس اور نیوی  نے مل کر رات گئے اچانک کارروائی کی۔

’قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیں گے: ترجمان بلوچستان حکومت

بلوچستان حکومت کے ترجمان نے وضاحتی بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’مظاہرین کی گوادر پورٹ کی جانب پیش قدمی کو روکنے کے لیے مجبوراً پولیس کو کارروائی کرنا پڑی۔‘
ترجمان کے مطابق ’صوبائی حکومت نے شروع سے مذاکرات کے ذریعے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی۔ وزیراعلیٰ نے بھی چند ماہ قبل خود جا کر مذاکرات کے ذریعے دھرنا ختم کرایا اور  حق دو تحریک کے بیشتر مطالبات تسلیم کرکے ان پر عملدرآمد شروع کیا گیا۔‘
ترجمان نے بتایا کہ ’صوبائی وزیر داخلہ کی سربراہی میں حکومتی ٹیم نے طویل مذاکرات کیے لیکن یہ امر باعث افسوس ہے کہ تحریک کی جانب سے صوبائی حکومت کی مخلصانہ کوششوں اور بات چیت کی خواہش کو کمزوری سمجھا گیا۔‘

’حق دو تحریک‘ کی جانب سے گوادر کے پورٹ روڈ پر گزشتہ دو ماہ سے مسلسل دھرنا جاری تھا۔ (فوٹو: عرب نیوز)

بلوچستان حکومت کے ترجمان کا کہنا تھا کہ امن و امان برقرار کھنا اور عوام کے جان و مال کے تحفظ حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ کسی کو حکومتی رِٹ چیلنج کرنے اور قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘

’حق دو تحریک‘ کے مطالبات کیا ہیں؟

مولانا ہدایت الرحمان کی سربراہی میں ’حق دو تحریک‘ کی جانب سے گوادر کے پورٹ روڈ پر گزشتہ دو ماہ سے مسلسل دھرنا جاری تھا۔
مظاہرین بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں بڑی کشتیوں اور ممنوعہ جالوں کے ذریعے غیر قانونی ماہی گیری کی روک تھام ، غیر ضروری چیک پوسٹوں، منشیات کے اڈوں کے خاتمے اور سرحدی تجارت میں آسانیاں پیدا کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
گزشتہ ہفتے احتجاج میں شدت لاتے ہوئے مظاہرین شرکا نے ایکسپریس وے پر دھرنا دے کر گوادر پورٹ جانے والے تمام راستوں کو بند کر دیا تھا جس کی وجہ سے پورٹ میں رہائش پذیر چینی انجینیئرز اور ماہرین کی سی پیک منصوبوں تک رسائی معطل ہوگئی۔
18 دسمبر کو گوادر کے علاقے اورماڑہ کی پولیس نے مولانا ہدایت الرحمان سمیت ’حق دو تحریک‘ کے 12 کارکنوں کے خلاف اسلحے کی نمائش کرنے پر مقدمہ درج کیا تھا۔
گزشتہ سال بھی مظاہرین نے 32 دنوں تک گوادر میں اسی طرز کا احتجاجی دھرنا دیا تھا جو وزیراعلٰی بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کے ساتھ معاہدے کے پر دستخط ہونے کے بعد بعد ختم کردیا گیا تھا۔
مولانا ہدایت الرحمان کا کہنا تھا کہ حکومت نے معاہدے اور مطالبات پر عملدرآمد نہیں کیا اس لیے انہوں نے دوبارہ احتجاجی دھرنا دیا۔

شیئر: