یہ میچ پاکستانی وکٹ کیپر امتیاز احمد کی شاندار اننگز کی وجہ سے امتیازی حیثیت اختیار کر گیا (فوٹو: ہندوستان ٹائمز)
نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم 20 برس بعد پاکستان میں ٹیسٹ سیریز کھیل رہی ہے اور ہمیں تذکرہ کرنا ہے 67 برس پہلے کی ٹیسٹ سیریز کے دوسرے ٹیسٹ کا جو باغ جناح کرکٹ گراؤنڈ میں ہوا۔ اس کی خاص بات یہ تھی کہ پاکستان نے یہ میچ جیت کر نیوزی لینڈ کے خلاف تین میچوں کی سیریز میں فیصلہ کن برتری حاصل کی۔
کراچی میں مہمان ٹیم پہلا ٹیسٹ ہار چکی تھی۔ ڈھاکا میں تیسرا ٹیسٹ بے نتیجہ رہا اور پاکستان نے سیریز دو صفر سے جیت لی۔
یہ پاکستان کی نہ صرف نیوزی لینڈ بلکہ کسی بھی ٹیم کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں پہلی کامیابی تھی۔ 1973 میں پاکستان نے بیرون ملک پہلی دفعہ ٹیسٹ سیریز بھی نیوزی لینڈ سے جیتی تھی۔
1955 میں باغ جناح کرکٹ گراؤنڈ میں نیوزی لینڈ کے خلاف جیت کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن یہ میچ پاکستانی وکٹ کیپر امتیاز احمد کی شاندار اننگز کی وجہ سے امتیازی حیثیت اختیار کر گیا۔ 209 رنز بنا کر وہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں ڈبل سنچری بنانے والے پہلے وکٹ کیپر بن گئے۔ پاکستان کی طرف سے پہلی ڈبل سنچری بنانے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ آٹھویں نمبر پر بیٹنگ کرتے ہوئے سب سے زیادہ رنز کا ریکارڈ بنایا جسے 41 برس بعد شیخوپورہ میں وسیم اکرم نے زمبابوے کے خلاف257 رنز (ناٹ آوٹ) بنا کر توڑا۔
وکٹ کیپر کی حیثیت سے امتیاز احمد کے سب سے زیادہ رنز کا ریکارڈ 1980 میں آسٹریلیا کے خلاف، فیصل آباد ٹیسٹ میں تسلیم عارف نے 210 رنز بنا کر توڑا۔ یہ وہی ٹیسٹ ہے جس میں مردہ پچ سے زچ ہو کر عظیم فاسٹ بولر ڈینس للی نے کہا تھا کہ انہیں مرنے کے بعد فیصل آباد کی وکٹ میں دفن کر دیا جائے۔ ( انگلینڈ کے خلاف راولپنڈی ٹیسٹ میں سلو پچ کی وجہ سے اس بات کا تذکرہ پھر سے چھڑا۔ ایک صحافی نے فاسٹ بولر نسیم شاہ کو اس کا حوالہ دیا تو انہوں نے کہا ’سر آپ مجھے بھی مارنے کے چکر میں ہیں؟‘)
ٹیسٹ کرکٹ میں پہلی کے بعد دوسری ڈبل سنچری بھی پاکستانی وکٹ کیپر نے بنائی۔ گزشتہ 42 برسوں میں کوئی پاکستانی وکٹ کیپر ڈبل سنچری نہیں بنا سکا۔
نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ میں امتیاز احمد کے بلے نے ہی رنز نہیں اگلے، وقار حسن نے بھی 189 رنز کی عمدہ اننگز کھیلی۔
دونوں بلے بازوں کی کارکردگی کی اہمیت اس لیے بھی بہت ہے کہ امتیاز احمد بیٹنگ کے لیے آئے تو 111 رنز پر پاکستان کی چھ وکٹیں گر چکی تھیں اور ٹیم بہت دباؤ میں تھی۔ وقار حسن کے ساتھ مل کر انہوں نے ساتویں وکٹ کی شراکت میں 308 رنز جوڑے اور پاکستان کی طرف سے کسی بھی وکٹ کی شراکت کے لیے سب سے زیادہ رنز بنانے کا ریکارڈ بنایا۔
امتیاز احمد نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ انہوں نےاس اننگز میں جو مختلف ریکارڈ قائم کیے ان سب کی خبر انہیں اگلے دن کے اخبارات سے ہوئی۔
کرکٹ میں وہ انفرادی کارکردگی زیادہ شان رکھتی ہے جس کی بدولت ٹیم کو جیتنے میں مدد ملے۔ بلاشبہ امتیاز احمد اور وقار حسن دونوں کی بیٹنگ نے پاکستان کو تاریخی فتح دلانے میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔
میچ کے آخری دن تماشائیوں کو بڑی دلچسپ اور سنسنی خیز کرکٹ دیکھنے کو ملی۔ پاکستان کو میچ جیتنے کے لیے 110 منٹ میں 117 رنز کرنے تھے۔ ہدف کے تعاقب میں وکٹیں گرتی رہیں، لیکن آخر کار پاکستان نے چار وکٹوں سے کامیابی حاصل کر لی۔
یہ میچ نیوزی لینڈ کی ٹیم ہار گئی، لیکن اس کی مثبت سوچ، شائقین کرکٹ کی دِلوں میں گھر کر گئی۔
حنیف محمد نے اپنی کتاب ’پلیئنگ فار پاکستان‘ میں نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کی سپورٹس میں سپرٹ کو سراہا ہے کہ اس نے حریف ٹیم کی فتح کی راہ میں روڑے اٹکانے کے لیے خراب روشنی اور متوقع بارش کے انتظار میں تاخیری حربے استعمال نہیں کیے۔
بات سے بات نکلتی ہے۔ اس لیے یہ بھی بتا دیں کہ ٹیسٹ کرکٹ میں ڈبل سنچری سے پہلے امتیاز احمد فرسٹ کلاس کرکٹ میں ٹرپل سنچری بنا چکے تھے۔1951 میں امتیاز احمد، فضل محمود اور خان محمد کو انڈین پرائم منسٹر الیون کا حصہ بننے کا موقع ملا۔
کامن ویلتھ کی ٹیم کے ساتھ ٹاکرا تھا۔ امتیاز احمد اس میچ میں ٹرپل سنچری بنا کر برصغیر بھر میں مشہور ہو گئے۔ ان سے پہلے دو وکٹ کیپر، آسٹریلیا کے بلی مرڈوخ اور ویسٹ انڈیز کے کلائیڈ والکاٹ فرسٹ کلاس کرکٹ میں یہ معرکہ سر کر چکے تھے۔
امتیاز احمد کے بعد فرسٹ کلاس کرکٹ میں کسی وکٹ کیپر کے ٹرپل سنچری بنانے کا مرحلہ 57 برس بعد اس وقت آیا جب 2012 میں سری لنکا کے کوشل پریرا نے کولمبو میں 336 رنز بنائے۔
امتیاز احمد کی اننگز لوگوں کی یادداشت کا مستقل حصہ بن گئی۔ سندھی کے ممتاز ادیب اور دانش ور امر جلیل کرکٹ کے رسیا ہیں۔ امتیاز احمد کھلاڑی ہی نہیں شخصی اعتبار سے بھی انہیں بہت پسند ہیں۔ ان کے دل میں امتیاز احمد کے فین ہونے کا انکھوا کیسے پھوٹا اس کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:
’امتیاز احمد میری روح کی گہرائیوں تک تب اتر گئے تھے جب انہوں نے ورلڈ الیون (کامن ویلتھ کی ٹیم) کے خلاف بمبئی میں تین سو رنز بنائے تھے اور آؤٹ نہیں ہوئے تھے۔ ڈان اخبار نے پہلے صفحے پر امتیاز احمد کی تصویر گول دائرے میں شائع کی تھی اور لکھا تھا:Imtiaz scores 300 not out
امتیاز سے کبھی نہیں ملا، سٹیڈیم میں بیٹھ کر ان کو بیٹنگ کرتے ہوئے دیکھا تھا، امتیاز احمد کی جو تصویر میں نے بنائی تھی وہ عین اسی طرح نکلے، پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے کھیلتے تھے، ادب سے رغبت رکھتے تھے، اپنے دور کے نامور ادیبوں کے دوست تھے، خاص طور پر شفیق الرحمٰن کے۔ پاکستان ائیرفورس میں بطور سکوارڈن لیڈر کام کرتے تھے، شریف النفس، لوگوں کا احترام کرنا جانتے تھے، کبھی کسی کی دل آزاری نہیں کی، کبھی کسی کو نہ ڈانٹا نہ کسی سے اونچی آواز میں بات کی، اپنے کھیل میں محو رہتے تھے، برسوں بعد امتیاز کی جھلک مجھے یونس خان میں دکھائی دی ہے۔‘
امتیاز احمد کی ٹیسٹ میں ڈبل سنچری ہو یا فرسٹ کلاس کرکٹ میں ٹرپل سنچری دونوں اس وقت بنائی گئیں جب ٹیم پر کڑا وقت تھا۔ اس مناسبت سے ہم اپنی بات ٹیسٹ کرکٹ میں حنیف محمد کی اس تاریخی اننگز کے ذکر پر ختم کرتے ہیں جو کسی بلے باز کی اپنی ٹیم کو شکست سے بچانے کی عظیم ترین کوشش ہے۔
1958 میں برج ٹاؤن ٹیسٹ میں ویسٹ انڈیز سے ٹیسٹ میچ میں فالو آن کے بعد حنیف محمد نے 970 منٹ کریز پر رہ کر 337 رنز بنائے اور مزاحمت کی روشن مثال قائم کی۔ اس جدوجہد میں ان کے پہلے ساتھی امتیاز احمد تھے جو اپنی جارحانہ بیٹنگ سے ویسٹ انڈین فاسٹ بولروں کو خاطر میں نہ لائے۔ نہایت عمدگی سے 91 رنز بنائے اور بیٹنگ لائن اپ کو مضبوط بنیاد فراہم کی۔
حنیف محمد نے خود نوشت میں ان کی اننگز کو حیرت انگیز قرار دیا ہے اور گلکرسٹ کی گیند پر انہیں غلط آؤٹ دیے جانے کا ذکر بھی کیا ہے۔ امتیاز احمد نے اپنے کرئیر میں کئی عمدہ اننگز کھیلیں جن میں سے دو کا ذکر آپ اوپر پڑھ ہی چکے ہیں، لیکن ذاتی طور پر اس اننگز کو وہ اپنی بہترین اننگز قرار دیتے تھے۔ امپائر کے خراب فیصلے کے نتیجے میں ایل بی ڈبلیو ہونے کا انہیں بہت قلق تھا۔