Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’نیوز نہیں ویوز‘، یوٹیوبرز پی اے سی اجلاس کی کوریج نہیں کر سکیں گے

پاکستان کی پارلیمان کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم خان نے یوٹیوبرز کے کمیٹی کی کوریج کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔
منگل کو کمیٹی اجلاس کے آغاز پر چیئرمین پی اے سی  نور عالم خان نے کہا کہ ’ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ صرف الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا سے وابستہ صحافی ہی پبلک اکاونٹس کمیٹی کے اجلاس کی کوریج کرسکتے ہیں اس لیے یوٹیوبرز کے کمیٹی اجلاس میں آنے اور اس (اجلاس) کی کوریج کرنے پر پابندی عائد کر رہے ہیں۔‘
اردو نیوز نے چیئرمین پی اے سی کی جانب سے اس فیصلے کی وجوہات جاننے کے لیے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ’وہ یوٹیوبرز جو کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اور ویوز لینے کے لیے سوالات کرتے ہوئے کسی کی عزت، قومی سلامتی، پارلیمانی روایات اور صحافتی اقدار کا خیال نہیں رکھتے وہ بڑا مسئلہ ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ پی اے سی میں بعض اوقات حساس معاملات زیربحث آتے ہیں باضابطہ صحافی ان معلومات کو پیشہ وارانہ اصولوں کے مطابق رپورٹ کرتے ہیں ’لیکن اس طرح کے یوٹیوبرز ایسی حساس معلومات کو غیرذمہ دارانہ طریقے سے رپورٹ کرتے ہیں جو کسی صورت مناسب نہیں۔‘
چیئرمین پی اے سی نورعالم خان کا کہنا تھا کہ ’یوٹیوبرز کسی قانون اور قاعدے کے تحت پارلیمانی کمیٹیوں کی کوریج کا استحقاق بھی نہیں رکھتے اس لیے ہمارے فیصلے سے کسی کا بنیادی حق یا استحقاق مجروح نہیں ہوا۔‘
سینیئر صحافی مطیع اللہ جان جو کافی عرصے سے اپنا یوٹیوب چینل چلا رہے ہیں، انھیں اس فیصلے کے بجائے یوٹیوبرز کو پارلیمانی کمیٹیوں تک رسائی دینے پر حیرانی ہوئی۔
اردو نیوز سے گفتگو میں مطیع اللہ جان نے کہا کہ ’کمیٹی کی کوریج کے حوالے سے میرا کوئی زیادہ تجربہ تو نہیں لیکن اس بات پر حیرانی ضرور ہے کہ ہر یوٹیوبر جو یوٹیوب پر وی لاگ کرتا ہے اسے پارلیمنٹ تک رسائی حاصل ہے تو میرے لیے یہ بھی ایک خبر ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پی اے سی بھی باقی کمیٹیوں کی طرح ایک کمیٹی ہے۔ یہ معاملہ کسی ایک کمیٹی کی کوریج کا نہیں ہے بلکہ پارلیمنٹ تک رسائی کا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ سابق سپیکر اسد قیصر کے دور میں اگر یوٹیوبرز کو پارلیمنٹ تک رسائی دی گئی تھی تو اب اسے ختم کیا جا رہا ہے یا اس حوالے سے کیا پالیسی ہے۔‘
مطیع اللہ جان نے سوال اُٹھایا کہ ’میری طرح بہت سے صحافی جو صحافت کے شعبے وابستہ تھے یا ہیں لیکن بوجوہ یوٹیوب پر ہیں اور وہاں بھی بطور صحافی ہی کام کرتے ہیں تو ان پر کیسے کوئی پابندی عائد کر سکتا ہے۔‘
اس  حوالے سے پی اے سی کے چیئرمین نورعالم خان نے واضح کیا ہے کہ ’باضابطہ صحافت کرنے والے رپورٹرز اگرچہ اپنے یوٹیوب چینل بھی رکھتے ہیں اور ان پر اپنے وی لاگ اپ لوڈ کرتے ہیں تو ہمیں ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کیونکہ وہ تجربہ کار اور صحافتی اخلاق اور ادارہ جاتی پالیسیوں سے آگاہ ہوتے ہیں۔ ان پر کوئی پابندی نہیں ہے بلکہ پابندی صرف غیر صحافتی عناصر یا یوٹیوبرز پر ہے۔‘
ہر گرزرتے دن پر یوٹیوب معلومات کی فراہمی کا ذریعہ بن رہا ہے اور متوازی میڈیا کی اہمیت اختیار کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب جامعات میں میڈیا ڈیپارٹمیٹس کے طلبہ کو ڈیجیٹل میڈیا کی ٹریننگ بھی دی جا رہی ہے، اس لیے اس طرح کی پابندیوں کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔
صحافتی تعلیم کے شعبے سے وابستہ استاد ڈاکٹر فرخ شہزاد سمجھتے ہیں کہ میڈیا ایک مسلسل ترقی پذیر شعبہ ہے۔ ’ایک زمانے میں صرف پرنٹ میڈیا تھا تو اس وقت بننے والے قوانین میں صرف پرنٹ کا ذکر ملتا ہے۔ الیکٹرونک میڈیا وجود میں آیا تو دنیا بھر میں اس کو ریگولیٹ کرنے کے ادارے اور قوانین بنے اور بن رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’موجودہ دور ڈیجیٹل میڈیا کا دور ہے۔ یوٹیوب بھی ڈیجیٹل میڈیا کا ایک جزو ہے۔ اس پر موجود افراد پر پابندی مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ یوٹیوب چینلز کی ادارتی پالیسی اور ان کو ریگولیٹ کرنے کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے۔‘
ڈاکٹر فرخ شہزاد کا مزید کہنا تھا کہ اس حوالے سے پارلیمنٹ، ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز، پی ٹی اے اور وزارت قانون کا مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

شیئر: