نثار عثمانی: جن کے چُبھتے سوالوں سے ’ضیا الحق برہم ہو جاتے‘
نثار عثمانی: جن کے چُبھتے سوالوں سے ’ضیا الحق برہم ہو جاتے‘
اتوار 4 ستمبر 2022 6:08
محمود الحسن -لاہور
کتنی ہی دفعہ نثار عثمانی کے چبھتے سوالوں سے ضیا الحق برہم ہوئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
ضیا الحق کے دور میں سرسری سماعت کی فوجی عدالت میں، ایک میجر نے، ان پر سیاست میں ملوث ہونے کا الزام دھرا تو اس کی صحت سے انکار کرتے ہوئے نثار عثمانی نے کہا کہ وہ صرف مساوات اخبار کی بحالی چاہتے ہیں تاکہ بیروزگار برسرِ روزگار ہو جائیں۔
ان کا موقف تھا کہ وہ مارشل لا کی مخالفت کرتے ہیں جیسا کہ ہر متمدن پاکستانی کو کرنی چاہیے اور رہی بات سیاست کی تو وہ میجر کے سرپرستِ اعلیٰ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ضیاء الحق کر رہے ہیں۔ فوجی افسر کو اپنے باس کے بارے میں یہ بے باکی بری لگی۔ نثار عثمانی کو ایک سال قیدِ بامشقت اور دس ہزار جرمانے کی سزا سنائی گئی۔
قید کی سختیاں اور حکومت کی گھرکیاں، نثار عثمانی کو کبھی مافی الضمیر بیان کرنے سے باز نہ رکھ سکیں۔ کتنی ہی دفعہ ان کے چبھتے سوالوں سے ضیا الحق برہم ہوئے۔
ایک مرتبہ قبلہ ضیاء الحق نے ان سے کہا:
’عثمانی صاحب، آپ اپنا قبلہ درست کر لیجیے۔‘
اس پر ان کا جواب تھا:
’میرا قبلہ تو درست ہے، آپ اپنے قبلہ کی سمت دیکھ لیجیے۔‘
سرسری سماعت کی فوجی عدالت میں میجر سے مکالمے کا ذکر نثار عثمانی نے نیوز آن سنڈے کی سابق ایڈیٹر فرح ضیا کو فرنٹیئر پوسٹ کے لیے دیے گئے انٹرویو میں کیا تھا۔ ضیا الحق کو ترکی بہ ترکی جواب دینے کی روایت ممتاز ادیب انتظار حسین نے بیان کی ہے۔
پسِ دیوارِ زنداں ان پر کیا گزری اس کی ایک جھلک، آزادی صحافت کی جنگ میں نثار عثمانی کے ساتھی احفاظ الرحمٰن نے یوں رقم کی:
’ہماری کوٹھری تنگ، سیلن زدہ اور بدبو دار تھی۔ تازہ ہوا کا کوئی گزر نہ تھا۔ اندر ہی ایک جانب رفع حاجت کے لیے ڈبا رکھا تھا۔ پیشاب کے لیے سلاخوں والے دروازے کے ساتھ اندر کی طرف ایک پکی نالی بنی ہوئی تھی۔ عثمانی صاحب شوگر کے مریض تھے۔ انہیں بار بار پیشاب کی حاجت ہوتی۔ وہ ’’معاف کیجیے گا‘‘ کہتے ہوئے، شرماتے ہوئے نالی کے پاس بیٹھ جاتے۔‘
احفاظ الرحمٰن نے یہ بھی لکھا کہ جیل کے قواعد کے مطابق جیلر صاحب راؤنڈ پر نکلتے تو قیدیوں کو سرجھکائے اکڑوں بیٹھنا پڑتا۔
مساوات پیپلز پارٹی کا ترجمان تھا۔ ضیا دور میں اس کی بندش کے خلاف آواز اٹھانے پر نثار عثمانی جیل گئے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے لیکن وہ بھٹو کے زمانے میں بھی مساوات سے صحافیوں کے نکالے جانے پر احتجاج کی پاداش میں محبوس ہوئے۔
1977-78 میں آزادی صحافت کی ملک گیر تحریک چلی تو نثار عثمانی پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سیکرٹری جنرل تھے۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ خبر ایک نظر دیکھ لیں جسے ضمیر نیازی نے اپنی کتاب ’صحافت پابندِ سلاسل‘ میں نقل کیا ہے:
’پی ایف یو جے کے صدر نثار عثمانی کے خلاف مارشل لا ریگولیشن13 اور33 کے تحت مقدمات درج کر لیے گئے۔ دی مسلم 10 جون 1983۔‘
1983 میں نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبارات سے وابستہ دس صحافیوں کو ملازمت سے اس لیے نکال دیا گیا کہ انہوں نے ایک ایسی یادداشت پر دستخط کیے تھے جس میں نواب شاہ کے ایک قصبے میں نہتے شہریوں پر فائرنگ کی مذمت اورمارشل لا اٹھانے کا مطالبہ تھا۔ ان دنوں تحریک بحالی جمہوریت کی سندھ میں کامیابی سے ضیا الحق خاصے پریشان تھے۔ وہ دس صحافی جنھیں برطرف کیا گیا، ان میں معروف ادیب اور صحافی مسعود اشعر بھی شامل تھے۔
انہوں نے اس واقعے کے 36 برس بعد اپنے کالم ’منہاج برنا اور نثار عثمانی کہاں ہیں؟‘ میں لکھا کہ جب نثار عثمانی نے مذکورہ صحافیوں کی ملازمت پر بحالی کے ضمن میں بات کی تو ضیا الحق نے کہا ’میرے بس میں ہوتا تو میں انھیں پھانسی چڑھا دیتا۔‘
اس پر نثار عثمانی نے جو جواب دیا اس کا حوالہ سینئر صحافی مظہر عباس کے ایک کالم ’صحافت کے خلاف مقدمہ‘ میں ملتا ہے: ’زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے، آپ یہ بھی کر کے دیکھ لیں۔ ہم پھر بھی حق گوئی سے باز نہیں آئیں گے۔‘
شخصیات نہیں اصولوں سے وابستگی
ہر بڑے آدمی کی طرح نثار عثمانی کی وابستگی شخصیات اور حکومتوں کے بجائے اصولوں کے ساتھ رہی اس لیے انہوں نے آزادی صحافت اور صحافیوں کے حقوق کے لیے اگر ایک دور میں کوئی پوزیشن لی تو اپنے عمل سے کسی دوسرے عہد میں اس کی نفی نہیں کی۔
ذوالفقار علی بھٹو کے صحافت دشمن اقدامات کی نثار عثمانی نے شدو مد سے مخالفت کی لیکن وہ ان زیرِ عتاب صحافیوں میں سے نہ تھے جو بعد میں ضیاء کے گرویدہ ہو گئے اور اپنے حساب سے بھٹو اور ان کی حکومت کی چیرہ دستیوں کے بیان کو آزادی صحافت کی معراج سمجھنے لگے، کچھ نگینے تو ایسے نکلے جنھوں نے مارشل لا کے بعد سابق حکومت کے خلاف وائٹ پیپر کے مصنفین میں شامل ہو کر اپنا اور صحافت دونوں کا نام ڈبویا۔
آئیے اس قسم کے صحافیوں سے متعلق نثارعثمانی کا نقطہ نظر جانتے ہیں:
’بعض ’’معاملہ فہم‘‘حضرات جن کے نزدیک آزادی صحافت کا مفہوم صرف یہ تھا کہ جانے والی حکومت کے ’’کارناموں‘‘ کو بے نقاب کیا جائے اور جو اپنی اس رو میں ذوالفقار علی بھٹو کا شجرہ نسب تک چھاپنے لگے، شعوری اور غیر شعوری طور پر اس خوش فہمی یا غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے کہ صحافت اب واقعی آزاد ہے کیوں کہ جو باتیں وہ چند ماہ قبل نہیں لکھ سکتے تھے، اب علی الاعلان رقم کر رہے ہیں۔ لیکن یہ حضرات یہ بھول گئے کہ آزادی صحافت ماضی کے حکمرانوں پر تنقید کا نام نہیں، کیونکہ یہ آزادی تو ہر دور میں صحافیوں کو حاصل رہی ہے کہ وہ وقت کی حزب اختلاف، ماضی کے حکمرانوں اور دوسرے ممالک کے آمروں کے خلاف جو جی میں آئے لکھیں۔ اصل آزادی صحافت تو یہ ہے کہ حکمران وقت کا گریبان پکڑا جائے اور اس کی صبح کی سرگرمیوں کا احتساب اگلے دن کے اخبار میں کیا جائے۔‘
نثار عثمانی پچاس کی دہائی میں صحافت کے میدان میں وارد ہوئے تو اسی کے ساتھ ہی آزاد صحافت اور صحافیوں کے حقوق کے لیے، ان کی جدوجہد کا آغاز ہو گیا۔ ٹریڈ یونینسٹ کی حیثیت سے ان کا کردار ایوب دور میں اجاگر ہوا جس میں پروگریسیو پیپرز لمیٹیڈ حکومتی قبضے میں آیا۔
بدنام زمانہ پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس نافذ ہوا۔ نیشنل پریس ٹرسٹ بنا۔ نثار عثمانی اس زمانے میں پی ایف یو جے کے پلیٹ فارم سے متحرک رہے۔ آزادی اظہار پر پابندیوں کے خلاف آواز بلند کی۔ یحییٰ خان کے دور میں بھی یہ جدوجہد جاری رہی جس میں صحافیوں نے اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے ملک گیر ہڑتال کی۔
نثار عثمانی کا خیال تھا کہ مشرقی پاکستان کے بحران کے دوران اہل صحافت نے اپنی ذمہ داریوں سے پہلوتہی کی۔ فوجی آپریشن کے خلاف کھل کر آواز نہیں اٹھائی اور قوم سے سچ نہیں بولا۔ تحریک پاکستان کا زمانہ اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور آزادی کے عظیم رہنماؤں کے اس عقیدت مند کے لیے ملک کا ٹوٹنا، ذاتی حیثیت میں بھی ایک بڑا سانحہ تھا۔
انتظار حسین اور نثار عثمانی کا خواب
مشرقی پاکستان میں جن دنوں حالات خراب تھے، ایک افطار پارٹی میں انتظار حسین کی نثار عثمانی سے ملاقات ہوئی، جس کا احوال انہوں نے خود نوشت ’جستجو کیا ہے؟‘ میں بیان کیا ہے۔:
’انتظار صاحب، ان دنوں آپ نے کوئی خواب دیکھا ہے؟‘
میں چکرایا کہ یہ کیسا سوال ہے۔ اور آخر عثمانی صاحب صحافی ہی ہیں، کوئی صوفی بزرگ تو نہیں ہیں کہ میرے دل کا حال اور میرے خوابوں کا احوال ان پر روشن ہو۔ میں نے تامل کیا۔ پھر کہا ’ہاں دیکھا ہے۔‘ پھر رک کر میں نے پوچھا ’کیا آپ نے کوئی خواب دیکھا ہے؟‘
’ہاں میں نے بھی ایک خواب دیکھا ہے۔‘
’کیا؟‘
’پہلے آپ اپنا خواب سنائیں۔‘
’ویسے تو میں پہلے ایسے خواب دیکھتا رہا ہوں کہ جیسے میں اپنی بستی میں گیا ہوں اور اپنا گھر تلاش کر رہا ہوں۔ پھر جیسے اچانک کسی خوف نے آ لیا ہو کہ میرے پاس پاسپورٹ نہیں ہے۔ پکڑا تو نہیں جاؤں گا اور پلٹ پڑتا ہوں۔‘
’ہاں میں سمجھ گیا۔ اب جو آپ نے خواب دیکھا ہے، وہ ذرا بیان کیجیے۔‘
’اب بالکل الٹ نقشہ تھا۔ جیسے میں اطمینان سے اپنے گھر گیا ہوں۔ ہمارے گھر میں جو ایک بڑا کمرہ تھا اور جس میں ہمارے والد کا بستر بچھا رہتا تھا اور برابر میں بڑا سا تخت، وہاں میں اسی جگہ بچھے پلنگ پر اپنا بستر کھول رہا ہوں اور دل میں کہہ رہا ہوں کہ یہ کمرہ ٹھیک ہے۔ یہاں رہوں گا۔‘
خواب کو مختصر سنا کر میں چپ ہو گیا۔ عثمانی صاحب تھوڑی دیر چپ رہے۔ پھر بولے ’میں نے یہ خواب دیکھا کہ میں دلی واپس گیا ہوں۔ اپنے گھر میں ہوں۔ وہاں عزیز رشتہ دار جمع ہیں۔ ان سے مل مل کر رو رہا ہوں اور کہہ رہا ہوں کہ میں آ گیا ہوں۔‘
میں یہ خواب سن کر تھوڑی دیر چپ رہا۔ پھر کہا کہ ’یہ تو میرے خواب سے ملتا جلتا خواب ہے۔‘ رک کر بولا ’ان خوابوں کی تعبیر آپ کی سمجھ میں آتی ہے۔‘
بولے ’تعبیر کوئی اچھی نہیں ہے۔ دیکھ نہیں رہے مشرقی پاکستان سے کیسی خبریں آ رہی ہیں۔ انتظار صاحب، پاکستان ٹوٹ رہا ہے۔ بری گھڑی آنے والی ہے۔‘
تزئینِ کائنات کا باعث وہی بنے
تاریخ میں انہی افراد کو تکریم ملتی ہے جو طاقت کے اصل مرکز کو چیلنج کرتے ہیں۔ حبیب جالب اور نثار عثمانی اسی راہ کے مسافر تھے۔ان جیسی ہستیوں کے لیے ہی احمد مشتاق نے یہ شعر کہا:
تزئینِ کائنات کا باعث وہی بنے
دنیا سے اختلاف کی جرات جنھوں نے کی
حبیب جالب اور نثار عثمانی جن زمانوں میں حکمرانوں کو للکار رہے تھے، ایک سے بڑھ کر ایک خوشامدی موجود تھا لیکن آج ہمارے اجتماعی حافظے سے ان کا نام حرفِ غلط کی طرح مٹ چکا ہے۔ حکمرانوں کی خوشامد نری رسوائی ہے۔عظیم فکشن نگار ستاں دال نے لکھا تھا:
’اگر تم بااقتدار لوگوں کی چاپلوسی کا سوچ رہے ہو تو یقین رکھو کہ تم نے ابدی لعنت مول لے لی ہے۔‘
حبیب جالب اور نثار عثمانی میں بڑی دوستی تھی۔ باہمی احترام کا رشتہ تھا۔ جالب ان کے سیاسی تجزیے بھی کان دھر کر سنتے۔ ان سے استفادہ کرتے۔ صحافی ہی نہیں شخصی اعتبار سے بھی ان کی بڑائی کے قائل تھے۔ ان کے بقول ’نثار عثمانی بڑی معصوم اور پیاری شخصیت کا نام ہے۔ میں نے ایک دن ان سے کہا اس شہر میں جتنی روحانی شخصیات شاہ حسین اور دوسرے صوفیا ہیں ان کے بعد میں آپ کا احترام کرتا ہوں اور ہمیشہ کرتا رہوں گا۔ میرا کوئی فنکشن ان کے بغیر مکمل نہیں ہوتا وہ میرے ہر فنکشن میں آتے ہیں۔‘
جالب بیتی کا آئیڈیا
ادھر نثار عثمانی کے دل میں حبیب جالب کی بڑی قدر تھی۔ ان کی شاعری کی کتابیں تو موجود تھیں لیکن نثار عثمانی چاہتے تھے کہ ان کی زندگی کی کہانی بھی سامنے آ جائے، جس کے لیے ان کی پُر خلوص کوششوں کے بارے میں سینیئر صحافی حامد میر نے لکھا:
’نثار عثمانی صاحب نے ہماری ڈیوٹی لگائی کہ حبیب جالب کی آپ بیتی مرتب کی جائے اور اس مقصد کے لیے انہوں نے لاہور میں اپنے گھر کا ایک کمرہ مخصوص کر دیا۔ میں نے اور مظفر محمد علی نے جالب صاحب کو راضی کر لیا اور عثمانی صاحب کے گھر میں طاہر اصغر نے ’’جالب بیتی‘‘ کو ایک کتاب کی شکل دی۔‘
جس طرح سے نثار عثمانی نے حبیب جالب کی یادداشتوں کو ریکارڈ کرنے کا سنجیدگی سے سوچا کاش کوئی انہیں بھی آپ بیتی لکھنے یا ریکارڈ کرانے پر آمادہ کر پاتا تو ایک اہم دستاویز تیار ہوجاتی جس سے بہت کچھ سیکھا اور جانا جا سکتا۔
دوسروں کے ہمدرد اور غم خوار
حیدر بخش حیدری دہلوی نے ’آرائش محفل‘ میں لکھا ہے:
’خلق میں ایسے لوگ بھی ہیں جو غیر کے واسطے اپنا سکھ چھوڑیں، اوروں کے کام میں دکھ بھریں۔ فی الحقیقت دونوں جہان میں بھلے وہی ہیں، جینا مرنا بھی انہیں کا اچھا ہے۔‘
اس اقتباس میں جس طرح کے لوگوں کی بات ہو رہی ہے، نثار عثمانی انہی کی مثل تھے۔ ان کی کھلی کتاب جیسی زندگی سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ علالت کے دوران بھی دوسروں کو تکلیف میں دیکھ کر بیکل ہوجاتے۔ انتقال سے پہلے بھی ویج بورڈ ایوارڈ پر عمل درآمد کے لیے دوڑ دھوپ کرتے رہے۔
عاصمہ جہانگیر نے ایک واقعہ بیان کیا ہے جس سے ان کے مونس و غم خوار ہونے کا پتا چلتا ہے:
’ایک بار مجھے یاد ہے عثمانی صاحب بہت بیمار تھے۔ بینظیر بھٹو کا لانگ مارچ تھا۔ میں اپنی گاڑی ان کے گھر کے سامنے پارک کرنے آئی تاکہ گاڑی محفوظ رہے اور جب چپکے سے نکلنے لگی تو اندر سے عثمانی صاحب کی آواز آئی کہ آپ ادھر آئیے فوراً۔ مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے اور بات بھی کسی اور کی تکلیف کے بارے میں تھی جو تکلیف عثمانی صاحب نے اپنے ذمے لے لی تھی۔ وہ اپنے ایک فوت ہوئے دوست کی تکلیف اپنے سینے پر لیے بیٹھے تھے اور اس بارے میں بہت مضطرب تھے۔ میں نے کہا عثمانی صاحب میں واپسی پر ملتی جاؤں گی۔ انہوں نے کہا کہ واپسی کیا، اکٹھے ہی چلیں گے۔ میں نے کہا عثمانی صاحب آپ کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے آپ نہ جائیے، کہنے لگے صرف یہاں باہر تک جاؤں گا۔ مگر وہ دو دو قدم کرتے ہوئے آگے بڑھتے گئے جب تک اپنی آنکھوں سے مظاہرہ دیکھ نہ لیا عثمانی صاحب واپس نہیں آئے۔ اور کہا کہ میں اول و آخر صحافی ہوں نا، ہمیشہ صحافی ہی رہوں گا۔‘
عاصمہ جہانگیر نے ان کی یاد میں تقریب سے خطاب میں یہ بھی بتایا کہ ہیومن رائٹس کمیشن کے وائس چیئرمین اور غلام جیلانی فاؤنڈیشن کے چیئرمین کی حیثیت سے نثار عثمانی کو جب کسی معاملے پر پریس کانفرنس کے لیے کہا جاتا تو وہ کنی کترا جاتے، ان کا موقف ہوتا کہ صحافی کی حیثیت سے وہ میز کے اُس طرف نہیں اِس طرف ہی رہیں گے۔
حسرت موہانی کے پیروکار
ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرتؔ کی طبیعت بھی
برصغیر میں حریت فکر کے مجاہد حسرت موہانی، نثار عثمانی کے آئیڈیل تھے۔ اس کا ذکر معروف صحافی اور نثار عثمانی کے دوست حسین نقی نے اپنے کالم میں کیا ہے۔ یہ بات کہ انہوں نے اس مرد مجاہد کی آنکھیں دیکھ رکھی تھیں، اس کا ذکر نثار عثمانی کے فرنٹیئر پوسٹ والے انٹرویو میں ہے جس کا حوالہ اوپر آ چکا ہے۔
وہ صحافت میں حسرت کے نقش قدم پر چلنے سے پہلے حقیقی معنوں میں بھی ان کے نقش قدم پر چلتے رہے ہیں۔ 1946 میں مسلم کالج کان پور کے طالب علم کی حیثیت سے وہ مولانا کی انتخابی مہم کا حصہ بنے۔ مولانا پیدل چلتے تو یہ خاموشی سے ان کی پیروی کرتے۔
فیض احمد فیض نے حسرت موہانی کے بارے میں جو شعر کہا وہ نثار عثمانی پر بھی صادق آتا ہے:
مر جائیں گے ظالم کی حمایت نہ کریں گے
احرار کبھی ترک روایت نہ کریں گے
مخالفین کو غدار کہنے کی ریت
پاکستان میں مخالفین کو غدار اور ملک دشمن قرار دینے کی ریت بڑی پرانی ہے۔ کون ہے؟ جو ان الزامات کی زد میں نہیں آیا۔ غدار غدار کے اس ناٹک کی حقیقت نثار عثمانی نے بڑے جچے تلے الفاظ میں بیان کی ہے جس کا اطلاق پاکستان کے موجودہ حالات پر بھی ہوتا ہے:
’اس ملک میں حکمراں جماعتوں، آمروں اور سیاسی تنظیموں میں بدقسمتی سے اختلاف رائے برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں جو بھی حکمرانِ وقت کی کوتاہیوں اور غلط کاریوں کو بے نقاب کرے، چشم زدن میں وطن دشمن قرار پاتا ہے اور وقت کے مفتی سیاسی تکفیر کے اسلحہ سے مسلح ہو کر اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ چنانچہ واقعات شاہد ہیں کہ اس ملک میں باری باری، الا ماشا اللہ، تمام سیاست دان ایک ایک کر کے محب وطن اور وطن دشمن قرار پا چکے ہیں، حزب اختلاف میں ہوں تو وطن دشمن اور تخت طاؤس پر متمکن ہوں تو نہ صرف محب وطن بلکہ دوسروں کو وطن دشمن قرار دینے والے ہیں۔‘
سفرِ زیست کا مختصر احوال
نثار عثمانی 1931 میں الہ آباد کے علاقے سید سراواں میں پیدا ہوئے۔ معروف محقق عقیل عباس جعفری نے ’پاکستان کرونیکل‘ میں لکھا ہے کہ ’ان کے والد انوار الحق الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سر شاہ محمد سلیمان کے پرائیویٹ سیکریٹری تھے۔‘
انہوں نے خاندان کے ہمراہ نومبر 1947 میں پاکستان ہجرت کی۔ نثار عثمانی کے گھرانے کو بہاول نگر منتقل ہونا پڑا جہاں ریلوے میں ملازم ان کے بھائی کی تعیناتی ہوئی تھی۔ کچھ ہی عرصے بعد انہیں والد کے انتقال کا صدمہ جھیلنا پڑا۔ گھر کی ذمہ داریوں کا بوجھ بانٹنے کے لیے سکول میں پڑھانے لگے۔
پرائیویٹ بی اے کرنے کے بعد 1951 میں پالیٹکل سائنس میں ایم اے کے لیے لاہور آئے اور پھر ساری زندگی اسی شہر میں گزری۔
ایم اے کے بعد کچھ عرصہ دیال سنگھ کالج میں جزوقتی لکیچرار رہے۔ 1953 میں صحافت میں آ گئے۔ یو پی پی اور پی پی آئی میں کام کرنے کے بعد جزوقتی نامہ نگار کی حیثیت سے انگریزی روزنامے ڈان سے وابستہ ہوئے۔ بعد ازاں اسی اخبار کے بیورو چیف بنے۔ 1991 میں ریٹائر ہوئے۔ اس کے بعد نمائندہ خصوصی کے طور پر ڈان کے لیے کام کیا۔
پی ایف یو جے کے تین دفعہ صدر منتخب ہوئے۔ اس تنظیم کو منہاج برنا اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر عزیمت کا نشان بنایا۔ عبدالحمید چھاپرا کے بقول ’عثمانی صاحب کی شخصیت نے ،ان کے کردار نے، ان کی جدوجہد نے، ان کی قربانیوں نے، نہ صرف پی ایف یو جے کو جلا بخشی، بلکہ انھوں نے اپنے ساتھیوں کی ایک نڈر فوج بھی تیار کی۔‘
پنجاب یونین آف جرنلسٹس کی صدارت کا بار بھی اٹھایا۔ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے بنیاد گزاروں میں سے تھے۔ اس کے بانی رکن، وائس چیئرمین اور کونسل رکن رہے۔
نثار عثمانی یار باش آدمی تھے۔ ان کے دفتر میں دوست برابر آتے۔ معروف صحافی اور براڈ کاسٹر علی احمد خاں نے بتایا کہ ان کا جب بھی لاہور آنا ہوتا، مال روڈ پر ڈان کے دفتر میں نثار عثمانی سے ملنے ضرور جاتے، ان سے ملاقات صرف ان سے ملاقات نہیں تھی بلکہ یہ بہت سے احباب سے ملنے کا بہانہ بھی بنتی۔
علی احمد خاں اس مجلس کو دربار عثمانیہ کہتے ہیں اور آج بھی معزز میزبان کی مہمان نوازی کو یاد کرتے ہیں۔ ان کے مطابق، نثار عثمانی مہذب، جرات مند اور بااصول انسان تھے۔
معروف صحافی حسین نقی کا کہنا ہے کہ دوستوں کے لیے عثمانی صاحب کے دفتر اور گھر کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے تھے۔
نثار عثمانی اپنی اہلیہ کے انتقال کے بعد چودہ برس جیے۔ ان کی اکلوتی اولاد ان کا بیٹا تھا۔ (حسین نقی نے ہمیں بتایا کہ چند سال پہلے اس کا بھی انتقال ہو گیا) وہ زندگی کے آخری برسوں میں باغبانی کی طرف ملتفت ہوئے۔ اس شوق کی آبیاری کے لیے شہر سے دور زمین کا ایک ٹکڑا بھی خریدا۔
مرحلۂ شوق طے ہو گیا لیکن اس سے حاصل مسرت کا عرصہ زیادہ لمبا نہ کھنچا کہ عمر کی نقدی ختم ہو گئی۔ تین ستمبر 1994 کو دل کی تکلیف کے باعث ہسپتال داخل ہوئے۔ اس سے اگلے دن دنیا سے چلے گئے۔
نثار عثمانی کو زندگی میں بڑی تکریم ملی۔ان کے بعد بھی انہیں یاد رکھا گیا۔ لاہور پریس کلب کا مرکزی ہال ان کے نام سے منسوب ہوا۔ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے الگ الگ نثار عثمانی ایوارڈ کا اجرا کیا۔ اس سے بڑھ کر عزت کی بات کیا ہو سکتی ہے کہ جس پیشے، ادارے اور تنظیم سے آپ وابستہ رہے ہوں وہ آپ کے نام کو باوقار انداز میں زندہ رکھے۔