دونوں رہنماؤں کے درمیان ویڈیو لنک پر رابطے کی فوٹیج سرکاری ٹیلی ویژن پر نشر کی گئی۔
صدر پوتن نے کہا کہ ’جناب چیئرمین، ہم آپ کی توقع کر رہے ہیں۔ پیارے دوست، ہم اگلے موسم بہار میں ماسکو کے سرکاری دورے پر آپ کے منتظر ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ دورہ ’دنیا کو روس اور چین کے تعلقات کی قربت کے بارے میں بتائے گا۔‘
تقریباً آٹھ منٹ تک بات کرتے ہوئے صدر پوتن نے کہا کہ روس اور چین کے تعلقات بڑھ رہے ہیں اور اس استحکام کی اہمیت ہے۔ اور وہ دونوں ملکوں کے درمیان فوجی تعاون کو بڑھانا چاہتے ہیں۔
جواب میں چین کے صدر شی نے کہا کہ ایسے وقت جب دنیا میں صورتحال ’مشکل‘ ہو گئی ہے چین روس کے ساتھ سٹریٹیجک تعاون بڑھانے کے لیے تیار ہے۔
روس اور چین کے درمیان تعلقات، جس کو دونوں ملک نے ’لامحدود‘ شراکت داری کے طور پر سراہتے رہتے ہیں، 24 فروری کو ماسکو کی جانب سے اپنی مسلح افواج کو یوکرین میں بھیجنے کے بعد سے زیادہ اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔
اگرچہ مغربی ممالک نے روس پر غیر معمولی پابندیاں عائد کی ہیں، لیکن چین نے امن کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے ماسکو کی فوجی مہم کی مذمت کرنے سے گریز کیا ہے۔
تنازع شروع ہونے کے بعد سے چین کو روسی توانائی کی برآمدات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، روس اب چین کا واحد سب سے بڑا تیل فراہم کرنے والا ملک ہے۔
صدر پوتن نے شی جن پنگ کو دوست کہہ کر مخاطب کیا۔ فوٹو: اے ایف پی
تاہم بیجنگ اب تک محتاط رہا ہے روس کو یوکرین کے خلاف کسی بھی ایسی قسم کی براہ راست مادی مدد فراہم نہ کرے جس سے چین کے خلاف مغربی پابندیوں کو جواز مل سکے۔
ستمبر میں ازبکستان میں ہونے والی سربراہی کانفرنس میں پوتن نے اپنے چینی ہم منصب کے یوکرین کی صورت حال کے بارے میں ظاہر کیے گئے ’تحفظات‘ کا اعتراف کیا تھا۔