Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

2021 میں 50 لاکھ بچے موت کے منہ میں گئے جو ’ناقابل برداشت‘ ہے: اقوام متحدہ

یونیسف کے مطابق پیدائش کے ایک ماہ بعد نمونیا، ڈائریا اور ملیریا بچوں کی اموات کا باعث بنتے ہیں۔ فوٹو: یونیسف
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث سنہ 2021 کے دوران دنیا بھر میں پانچ برس سے کم عمر کے 50 لاکھ بچے موت کے منہ میں چلے گئے جو ’ناقابل برداشت انسانی نقصان ہے جس سے بچا جا سکتا ہے۔‘
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے اطفال یونیسف کی سپیشلسٹ ودیا گنیش نے بتایا کہ ’ہر روز متعدد والدین اپنے بچوں کو کھو دینے کا دُکھ جھیلتے ہیں، ان میں سے ایسے بچے بھی ہیں جو پیدائش سے قبل ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’اتنے بڑے پیمانے پر ایسے المیے کو کسی صورت قابل قبول نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس سے بچا جا سکتا ہے۔ مضبوط سیاسی عزم اور مخصوص سرمایہ کاری بچوں اور خواتین کو بنیادی صحت کی سہولیات فراہم کر سکتے ہیں۔‘
مرنے والے 50 لاکھ بچوں میں سے 23 لاکھ ایسے سے جو پیدائش سے قبل یا پیدائش کے دوران ہونے والی پیچیدگیوں کے باعث پہلے ماہ ہی دنیا سے چلے گئے۔
یونیسف کے مطابق پیدائش کے ایک ماہ بعد نمونیا، ڈائریا اور ملیریا جیسی انفیکشن والی بیماریاں بچوں کے لیے بہت بڑا خطرہ بن کر سامنے آتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق زیادہ تر اموات کو بہتر ہیلتھ کیئر، ویکسینیشن، غذا اور پانی و نکاسی آب کے بہتر نظام کے ذریعے روکا جا سکتا ہے۔
یونیسف نے بتایا ہے کہ کورونا کی وبا کے باعث ویکسینیشن مہم میں تعطل آنے کے بعد بچوں کی ایمونائزیشن کی شرح میں سنہ 2020 کے مقابلے میں سنہ 2021 میں 20 لاکھ کی کمی آئی جبکہ سنہ 2019 کے مقابلے میں یہ شرح 60 لاکھ کم ہوئی۔ اس طرح مستقبل میں بچوں کی اموات کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
تاہم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کچھ مثبت چیزیں بھی ہیں۔ 
دنیا میں سنہ 2000 کے بعد پانچ برس سے کم عمر کے بچوں میں موت کی شرح 50 فیصد کم ہوئی ہے جبکہ بڑے بچوں اور نوجوانوں میں موت کی شرح میں 36 فیصد کمی ہوئی۔

یونیسف کی رپورٹ کے مطابق سنہ 2000 کے بعد بچوں کی اموات کی شرح میں کمی آئی۔ فوٹو: یونیسف

رپورٹ میں دنیا کے مختلف خطوں میں عدم مساوات کو واضح کیا گیا ہے۔
براعظم افریقہ کے سب سہارا خطے میں پیدائش کے وقت بچوں کی اموات کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
ورلڈ بینک کے گلوبل ڈائریکٹر برائے صحت، غذائیت اور آبادی ژاں پابلو یورب نے بتایا کہ ان اعداد وشمار کے علاوہ لاکھوں ایسے خاندان اور بچے ہیں جن کو صحت کی بنیادی سہولیات تک رسائی حاصل نہیں۔
’بنیادی صحت کے نظام میں رقم لگا کر ممالک اور ڈویلپمنٹ پارٹنرز بہترین سرمایہ کاری کر سکتے ہیں جس کے لیے سیاسی عزم اور لیڈرشپ درکار ہے۔‘

شیئر: