- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
ساحلوں کی دوریوں کے درمیاں
موج دریا کشتیوں کے درمیاں
ریت کے انبار پہ لکھا ہوا
نام اسکا سرخیوں کے درمیاں
کس نے پیغام محبت لکھ دیا
زندگی کے حاشیوں کے درمیاں
دوسروں کے عیب پر رکھ کر نظر
دیکھتا ہے خامیوں کے درمیاں
دیکھنا تو سیکھ لے کچھ اس طرح
زندگی کو خوبیوں کے درمیاں
ہورہے ہیں ملک کی تہذیب کو
ہے لڑائی کرسیوں کے درمیاں
کہتے کہتے کہہ گئی ہوں اک غزل
میں ردیف اور قافیوں کے درمیاں
پرکشش منظر ہے نکہت دیکھنا
تاج کی انگنائیوں کے درمیاں
- - - - - - - - - -
نسرین نکہت۔ راوڑ کیلا
***********
ہمارے عہد کی مونالیزا
تبسم ریز آنکھیں تھیں!
وہ ملتی جب کسی سے بے تکلف مسکرادیتی!
نہ جانے سوچتی کیا !
سوچ کر وہ سر جھکالیتی!
کھڑی خاموش رہتی !
دیر تک آنکھیں بچھائے وہ زمیں کوگھورتی رہتی !
کوئی آتا!ٹھہرتا !
پھر ٹھہر کر وہ چلاجاتا!
مگر وہ بت بنی خاموش !
سب کو دیکھتی رہتی !
ذرا سی دیر رک کر !
میں وہاں سے جب چلاجاتا!
پلٹتا میں !
تو مجھ کو دیکھ کر وہ مسکرادیتی!
یہی کرتی !
وہ اب بھی کچھ یہی کرتی !
وہ کس کی منتظر ہے !
سوچتی کیا ڈھونڈتی رہتی!!
زمیں کو گھورتی رہتی !
نہ جانے سوچ کر کیا بے تکلف مسکرادیتی!
- - - - - - - -
ڈاکٹر شفیق ندوی ۔ریاض
*******
اس دور میں اپنا وہ نشاں ڈھونڈ رہا ہے
کھویا ہے کہاں اور کہاں ڈھونڈرہا ہے
وہ شہر سے مفرور ہے یا شہربدر ہے
جودشت میں رہنے کو مکاں ڈھونڈرہا ہے
یاروں کی محبت میں وہ اس موڑ پہ آیا
اغیار کی گلیوں میں کنواں ڈھونڈرہا ہے
افسوس وہ جو زندہ دلی کا تھا نمونہ
زندہ ہے مگر عزمِ جواں ڈھونڈرہا ہے
حیرت ہے،جو ٹھکراکے،نظر پھیر کے آیا
وہ اپنی زمیں، اپنا جہاں ڈھونڈ رہا ہے
جوشمس وقمر کو کبھی خاطر میں نہ لایا
ذرات میں وہ کاہکشاں ڈھونڈرہا ہے
شاہد اسے اپنوں پہ بھروسا ہے ابھی تک
وہ شخص جو اپنوں میں اماں ڈھونڈرہاہے
- - - - - - - - -
شاہد نعیم۔جدہ