پہلی مرتبہ ’’خواہ مخواہ ‘‘ نے سب مداحوں کورُلا دیا ، اب وہ کسی کو ہنسائیں گے اور نہ ہی رُلائیں گے
- - - - - - - - - -
شہزاد اعظم ۔ جدہ
- - - - - - - - - -
-ہندوستان میں چند روز قبل ایک سانحہ بیت گیا ، دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت اور سب سے زیادہ انسانی آبادی والے دوسرے بڑے ملک میں اس وقت ایک ہنسانے والا کم ہوگیاجب ’’خواہ مخواہ حیدرآبادی ‘‘اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔وہ ساری زندگی اپنے لاکھوں بلکہ کروڑوںمداحوں کو ہنساتے رہے ، مگر پہلی مرتبہ انہوں نے سب مداحوں اور چاہنے والوں کورُلا دیا اورسب کو یہ یقین بھی دلا دیا کہ آئندہ وہ اپنے چاہنے والوں کو نہ ہنسائیں گے اور نہ ہی رُلائیں گے۔ ان کا نام تو غوث محی الدین احمد تھا مگر ’’خواہ مخواہ حیدرآبادی‘‘ کے نام سے انہوں نے شہرت پائی۔وہ جہاں کہیں اپنے اشعار سناتے ، سننے والے سب کچھ بھلا کرقہقہے لگانے پر ’’مجبور‘‘ ہوجاتے۔ ان کے مزاحیہ اشعار میں عام انسان کے حالات و معمولاتِ زندگی کا عکس ملتا تھا۔اس کے ساتھ ہی اشعار سنانے کا ا ن کا اپناہی انداز تھا جس کے باعث سننے اور دیکھنے والا لوٹ پوٹ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتاتھا۔
’’خواہ مخواہ حیدرآبادی‘‘نے 89سال کی عمر پائی۔ وہ 1928ء میںحیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے اور 2مئی 2017ء کو انتقال کر گئے۔انہیں حیدرآباددکن سے ہی شہرت ملی ۔ وہ اپنی مزاحیہ شاعری کے باعث مقبول ہوئے۔ انہیں مزاحیہ مشاعروں میں ضرور بلایاجاتا تھا۔ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ ’’خواہ مخواہ حیدرآبادی‘‘ہندوستان کے مزاحیہ مشاعروں کا جزوِ لازم تھے۔ انہیںطنز و مزاح میں ملکہ حاصل تھا۔ انہوں نے دکنی زبان میں بھی خوبصورت کلام کہا جو زباں زدِ عام ہوا۔اس کی ایک مثال ہے: ’’ نئیں بولے تو سنتے نئیں‘‘ ’’خواہ مخواہ حیدرآبادی‘‘نے ابتدائی تعلیم حیدرآباد دکن میں پائی۔
اردو میڈیم میں ہی ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا۔ بعدازاں باقی ماندہ تعلیم کا سلسلہ بھی انہوں نے حیدرآباد میں ہی مکمل کیا۔18برس کی عمر سے انہوں نے مشاعروں میں شرکت کرنی شروع کر دی تھی۔وہ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں موجود اردو بولنے، سمجھنے اور جاننے والوں میں مقبول تھے۔ مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں ہونے والے مشاعروں میں بھی انہیں مدعو کیاجاتا تھا جہاں خاص طور پر ہندوستان اور پاکستان کے تارکین وطن انہیں انتہائی شوق سے سنتے تھے۔وہ امریکہ اور یورپ بھی جاتے تھے جہاں ان کے مداحوں کی کثیر تعداد پائی جاتی ہے۔ ’’خواہ مخواہ حیدرآبادی‘‘ نے بدر نامی خاتون سے شادی کی، یہ محبت کی شادی تھی۔ ان کے 3بیٹے ہیں جن کے نام عارف احمد، عابد احمد اور عظیم احمد ہیں۔ان کے پوتے پوتیوں میں الیاس احمد، ثناء احمد، صائمہ احمد،ہدیٰ احمد، عدنان احمد، عرفان ا حمد، سعدیہ احمد، عمران خان، عائشہ خان، ایمان احمد اور مریم احمد شامل ہیں۔ اپنے بچوں سے ملنے کیلئے ’’خواہ مخواہ حیدرآبادی‘‘کینیڈا گئے تھے جہاں ان کے دماغ کی شریان پھٹ گئی جس کے بعد ہونے والے فالج نے انہیں چلنے پھرنے اور بولنے چالنے سے معذور کر دیا۔ اس حملے کے بعد ان کی صحت بتدریج گرتی گئی اور انجام کار انہیں واپس ہندوستان لایاگیاجہاں چند روز کے بعد ہی ’’خواہ مخواہ حیدرآبادی‘‘انتقال کر گئے ۔
’’خواہ مخواہ حیدرآبادی‘‘کی تصانیف میں ’’حرفِ مکرر‘‘، ’’بفرضِ محال‘‘اور ’’کاغذ کے تیشے‘‘ شامل ہیں۔ ’’خواہ مخواہ ‘‘ نے تمام شاعری ہی مزاحیہ نہیں کی بلکہ انہوں نے سنجیدہ اشعار بھی کہے ہیں۔ سنجیدہ اشعار کا نمونہ پیش خدمت:
خدا وندا میں تیرے نام سے آغاز کرتا ہوں
ترا بندہ ہوں تیری رحمتوں پہ ناز کرتا ہوں
فقط تیری مدد کے ہی بھروسے پر مرے مولا
مجھے اُڑنا تو نئیں آتا مگر پرواز کرتا ہوں
٭٭٭
خدا کے حکم کا جو اہتمام کرتے ہیں
حدیثِ پاک کا یوں احترام کرتے ہیں
خدا کے بندے ملے ہیں جہاں بھی آپس میں
کلام کرنے سے پہلے سلام کرتے ہیں
اب ’’خواہ مخواہ ‘‘ کے مزاحیہ اشعار سے اقتباس پیش ہے:
کِتے دنوں سے دکنی کی حالت خراب ہے
لگ را ہے جیسے اُس کی بھی صحت خراب ہے
گِلی ، خطیب اور بھلانوا بھی جا چکے
میری بھی ’’خواہ مخواہ‘‘ طبیعت خراب ہے
٭٭٭
سایہ نئیں ہے ، دھوپ کڑی ہے
سر پو آ کو موت کھڑی ہے
پھٹّا دامن کیسا سیئوں میں
دھاگہ چھوٹا، سوئی بڑی ہے
٭٭٭ *نئیں آیا نہ سمجھ میں کیسا ہے یہ تماشا
پانی میں ہے کب سے، پن گھلتائچ نئیں بتاشا
٭٭٭
میں اچھا یا برا جیسا بھی ہوں ویسائچ رہنے دو
مری شہرت کا قد چھوٹا ہے تو چھوٹائچ رہنے دو
چنے کے جھاڑ کو نکو چڑھاؤ کر کے تعریفاں
زمیں پو جاں بھی ہوں آرام سے بس وائنچ رہنے دو
بڑا شاعر بنا تو ’’خواہ مخواہ ‘‘ گردن اکڑ جائینگی
میں اک چھوٹا سا شاعر ہوں، مجھے چھوٹائچ رہنے دو
٭٭٭
مانگ کر تحفۂ نایاب لیا ہے جس نے
روئیگا وہ دلِ بیتاب لیا ہے جس نے
’’خواہ مخواہ ‘‘بس وہی ہنسنے سے کرے گا پرہیز
قبض ہے جس کو یا جلاب لیا ہے جس نے
٭٭٭
جھکی نظروں سے دل کی ساری باتیں بول دیتی ہے
نگاہِ عاشقانہ پول سارے کھول دیتی ہے
محبت عاشق و معشوق کو اندھا بناتی ہے
مگر شادی ہے جو دونوں کی آنکھیں کھول دیتی ہے
٭٭٭
مشکل میں اک نجات دہندہ ضرور ہو
سر جس پہ رکھ کے روئیں وہ کندھا ضرور ہو
معشوق ہو حَسیں، ضروری نہیں مگر
عاشق کو چاہئے کہ وہ اندھا ضرور ہو
٭٭٭
مانا وہ زمانے کے حسینوں سے حَسیں ہیں
یاں ہم بھی فنِ عاشقی میں کم تو نہیں ہیں
٭٭٭
حافظ کی رباعی یا غالب کی غزل جیسی
یا جھیل کے پانی پر اک نیل کنول جیسی
اک تاج محل میں بھی شاید بنا ہی لیتا
ملتی مجھے جو بیگم ممتاز محل جیسی
٭٭٭
دعا دینے میں ہم بھی ’’خواہ مخواہ ‘‘ کچھ کم نہیں ہیں
جنازے کو بھی لمب