Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سپیکر پی ٹی آئی کو اپوزیشن لیڈر کا عہدہ دینے سے روک سکتے ہیں؟

وزیراعظم کو اعتماد کے ووٹ کے لیے 172 ارکان کی حمایت درکار ہو گی (فوٹو: اے ایف پی)
سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے شہباز شریف سے اعتماد کا ووٹ لینے کے مطالبے کے بعد قومی اسمبلی ایک بار پھر مرکز نگاہ بن گئی ہے۔
سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے منگل کو پی ٹی آئی کے 34 اراکین اور اس کے اتحادی عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کے استعفے منظور کیے۔
دوسری جانب تحریک انصاف نے اپوزیشن لیڈر کے عہدے کے لیے سپیکر قومی اسمبلی سے رابطے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے مطابق پرویز خٹک اور عامرڈوگر کو سپیکر سے فوری رابطے کا ٹاسک دیا گیا ہے جس میں پی ٹی آئی اپوزیشن لیڈر ، چیئرمین پی اے سی اور پارلیمانی لیڈر کے عہدے پی ٹی آئی کو دینے کا مطالبہ کرے گی۔
اس ساری صورت حال کو سمجھنے کے لیے اس بات کی بھی وضاحت ضروری ہے کہ تحریک انصاف اپوزیشن لیڈر اور پارلیمانی لیڈر کے عہدے کا مطالبہ کیوں کر رہی ہے۔
پی ٹی آئی شہباز شریف کے قومی اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ لینے کے حوالے سے حکمت عملی بنا رہی ہے اور اس سلسلے میں پاکستان تحریک انصاف اپنے منحرف ارکان کو شہباز شریف کو ووٹ دینے سے روکنے یا ان کا ووٹ غیر موثر بنانے کے لیے پارلیمانی لیڈر کا عہدہ حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

پی ٹی آئی نے سپیکر سے ملاقات اور اپوزیشن لیڈر سمیت تین عہدوں کا مطالبہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے (فوٹو: قومی اسمبلی) 

قومی اسمبلی میں نمبر گیم کیا ہے؟

اعتماد کا ووٹ لینے کی حکمت عملی کے حوالے سے قومی اسمبلی میں موجودہ نمبر گیم کو بھی سمجھنا ضروری ہے۔
اس وقت قومی اسمبلی میں پی ڈی ایم اتحاد میں شامل مسلم لیگ ن کے 85 ارکان ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کی کل نشستوں کی تعداد 58 ہے۔
اتحاد میں شامل متحدہ مجلس عمل کے ارکان کی تعداد 15 تاہم جماعت اسلامی کے مولانا عبدالاکبر چترالی اس وقت اپوزیشن بنچوں پر موجود ہیں۔
اس وقت پی ڈی ایم اتحاد میں شامل ایم کیو ایم کے سات، بلوچستان نیشنل پارٹی پانچ ،بلوچستان نیشنل پارٹی چار، جمہوری وطن پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کا ایک ایک رکن قومی اسمبلی میں موجود ہے۔
یوں پی ڈی ایم اتحاد میں چوہدری شجاعت گروپ کے علاوہ 175 ارکان کی تعداد موجود ہے جبکہ وزیراعظم کو اعتماد کے ووٹ کے لیے 172 ارکان کی حمایت کی ضرورت ہو گی۔

اپریل میں استعفے دینے والے پی ٹی آئی ارکان میں سے مزید 34 کے استعفے منظور کیے گئے ہیں (فوٹو: سکرین گریب)

تحریک انصاف اس وقت قومی اسمبلی میں دو دھڑوں میں تقسیم ہے۔ پی ٹی آئی کے 125 استعفوں میں سے 46 استعفے منظور ہو چکے ہیں جس کے بعد اب قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 70 ارکان موجود ہیں جبکہ 23 ارکان منحرف ہو چکے ہیں جن کی سربراہی راجہ ریاض کر رہے ہیں۔
مسلم لیگ ق کی کل نشستوں کی تعداد پانچ ہے جن میں تین ارکان حکومت اور دو اپوزیشن بنچز پر موجود ہیں۔ ق لیگ کے مونس الٰہی بطور پارلیمانی لیڈر شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ نہ دینے کی ہدایت کر کے حکومتی ارکان کے ووٹ کو غیر موثر کر سکتے ہیں۔
اعتماد کا ووٹ لینے کی حکمت عملی کامیاب بنانے کے لیے پی ٹی آئی کے اتحاد کو کم از کم چار ارکان کو پی ڈی ایم اتحاد سے توڑنا ہو گا۔

کیا سپیکر پی ٹی آئی کو اپوزیشن لیڈر کا عہدہ لینے سے روک سکتے ہیں؟

قومی اسمبلی کے رولز کے مطابق اپوزیشن لیڈر ایوان میں اپوزیشن بنچز پر موجود اکثریتی جماعت نامزد کرتی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کی پارلیمنٹ کے اعداد و شمار اور قانون سازی پر نظر رکھنے والے غیر سرکاری ادارے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ ’رولز کے مطابق سپیکر قومی اسمبلی پی ٹی آئی کو اپوزیشن لیڈر کا عہدہ دینے سے نہیں روک سکتے۔‘

قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 23 منحرف ارکان کی قیادت راجہ ریاض کر رہے ہیں (فائل فوٹو)

احمد بلال محبوب کے مطابق ’پی ٹی آئی اگر پارلیمنٹ میں واپس آتی ہے تو وہ اس وقت اپوزیشن بنچوں پر سب سے بڑی جماعت ہو گی اور رولز کے مطابق اپوزیشن لیڈر بھی اسی کا ہو گا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر اس وقت پی ٹی آئی کے مزید استعفے بھی منظور کر لیے جائیں اور ان کی تعداد راجہ ریاض گروپ سے بھی کم ہو جاتی ہے تو پھر اپوزیشن لیڈر کا عہدہ حاصل کرنے میں پی ٹی آئی کو مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔‘
احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ ‘اپوزیشن لیڈر کی نامزدگی اکثریتی ارکان کی حمایت سے ہو گی اور اگر پی ٹی آئی کے ارکان کی تعداد راجہ ریاض گروپ سے کم ہو جاتی ہے اور راجہ ریاض گروپ اپنا اپوزیشن لیڈر نامزد کر دے تو اس صورت میں راجہ ریاض گروپ کا اپوزیشن لیڈر ہی منتخب ہو گا۔‘
احمد بلال محبوب کے مطابق ’یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب سپیکر قومی اسمبلی پی ٹی آئی کے مزید 70 ارکان کے بھی استعفے منظور کر لیں۔‘

شیئر: