ایران کی اخلاقی پولیس کی حراست میں 22 سالہ خاتون مہسا امینی جن کو درست طور پر حجاب نہ اوڑھنے پر گرفتار کیا گیا تھا، کی ہلاکت کے بعد ملک کے طول و عرض میں احتجاج پھوٹ پڑا جس کو روکنے کے لیے پاسداران انقلاب نے کئی ظالمانہ طریقے اختیار کیے۔
اس کریک ڈاؤن میں 528 عام شہری ہلاک ہوئے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں گرفتار کیے گئے۔
ٹائمز کا کہنا ہے کہ مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن میں 70 کے قریب فورس کے اہلکار بھی ہلاک ہوئے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاسداران انقلاب کے اہلکاروں میں مایوسی پھیلنے کی وجہ تنخواہیں ہیں جو لبنان کی حزب اللہ کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔
ٹائمز نے تنخواہوں سے متعلق دستاویز دیکھنے کا دعوٰی کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاسداران انقلاب کا ایک اہلکار مہینے میں تین سو ڈالر کماتا ہے جبکہ حزب اللہ میں اوسط تنخواہ ایک ہزار تین سو ڈالر تک ہے۔
ایک سورس کا کہنا تھا کہ ’ایرانی معیشت کو شدید دباؤ کا سامنا ہے جبکہ افراط زر نے اس کے مسائل کو مزید بڑھا دیا ہے۔‘
’حزب اللہ کے عسکریت پسند امیر ہو رہے ہیں اور ایرانی عوام پستی کی جانب جا رہے ہیں۔‘
سورس کے مطابق ’یہ فرق (تنخواہوں میں) پاسداران انقلاب کے اہلکاروں کے لیے تکلیف دہ ہے جبکہ وہ کئی ماہ سے فرنٹ لائن پر بھی ہیں۔ اس پر وہ خود کو کم اہم سمجھ رہے ہیں اور انہیں ادائیگی بھی بہت کم کی جا رہی ہے۔‘
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بسیج پیراملٹری ملیشیا کے ڈپٹی کمانڈر جنرل قاسم قریشی کی ایک لیکڈ ریکارڈنگ سامنے آئی ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ’گلیوں میں ڈیوٹی کرنے والے پاسداران انقلاب کے اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد شکوک اور الجھن کا شکار ہے۔‘
ایران کے دفاعی رپورٹر مرتضٰی عباس زادہ کا کہنا ہے کہ ’یہ نوجوان صرف ملازمتیں چاہتے تھے تاہم انہوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ انہوں نے خود کو کہاں جھونک دیا ہے۔‘
ان کے مطابق ’وہ الگ تھلگ رہائش گاہوں میں رہتے ہیں اور اپنے خاندان والوں سے بھی چھپاتے ہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔‘
تیل اور گیس سے لے کر تعمیرات تک کا اربوں ڈالر کا کاروبار چلانے کے باوجود پاسداران انقلاب کی رقم جس طرح سے خرچ کی جاتی ہے اس میں عوام کا حصہ نہیں ہوتا۔
معاشی تجزیہ کار مارڈو سورگھم کہتے ہیں کہ ’کوئی نہیں جانتا کہ یہ پراکسی فنڈنگ جو حزب اللہ کو ہو رہی ہے، کہاں سے آتی ہے اور عراق اور شام میں جانے والی رقوم کہاں سے آ رہی ہیں؟‘
’یہ سب کچھ بجٹ سے خفیہ رکھا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں ایرانی عوام بھی اس سے بے خبر ہیں۔‘