Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکومت نے نواز شریف کی سزاؤں کے خاتمے کے لیے کوئی کام نہیں کیا: مریم نواز 

پاکستان مسلم لیگ ن کی سینیئر نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت اپنے10  ماہ میں نواز شریف کو غیر قانونی اور غیر آئینی طریقے سے دی گئی سزاوں کے خلاف کوئی ایسا قدم نہیں اٹھا سکی جس سے نواز شریف پاکستان کی سیاست میں واپس آ سکیں۔ 
اسلام آباد میں صحافیوں کے ساتھ ملاقات میں مریم نواز نے کہا کہ ’مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ نواز شریف کی جماعت حکومت میں ہے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ نواز شریف کو دی گئی سزائیں مفروضوں پر مبنی تھیں۔ اس حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’نواز شریف اور میرے اوپر مقدمات بنانے والوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ الزامات جب کھلی عدالت میں سنے جائیں گے تو ان کو ہزیمت اٹھانا پڑے گی۔ ارشد ملک سمیت دیگر گواہیوں کے بعد اب وہ لوگ بھی بول رہے ہیں جو نواز شریف کو ہٹانے میں شامل تھے۔ شاہ محمود قریشی نے حال ہی میں کہا ہے کہ نواز شریف کو غیر آئینی طریقے سے نکال کر زیادتی کی گئی۔‘
مریم نواز شریف نے کہا کہ ’میرے علم میں ہے کہ ہماری حکومت اب نواز شریف کے کیسز اور سزاوں کے حوالے سے کچھ اقدامات کر رہی ہیں جن میں شاید قانون سازی بھی شامل ہے۔ اس لیے بہت جلد اس حوالے سے خوشخبری سننے کو ملے گی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم نواز شریف چلائیں گے۔ ان کے علاوہ مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم کوئی اور چلا ہی نہیں سکتا۔‘

’عدلیہ تفریق سے کام لے رہی ہے‘

مسلم لیگ ن کی سینیئر نائب صدر نے کہا کہ ’پاکستان کی عدلیہ عمران خان اور نواز شریف کے مقدمات میں تفریق برتتے ہوئے نا انصافی سے کام لے رہی ہے۔ یہ عدلیہ کے لیے کوئی اچھا تاثر نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میں نے اپنے والد کے ساتھ اسلام آباد کی نیب عدالتوں میں دو سو پیشیاں بھگتی ہیں۔ ہم صبح ساڑھے چار بجے لاہور سے چلتے تھے اور ساڑھے آٹھ بجے عدالت پہنچتے تھے اور عدالت سے حاضری کے لیے استثنیٰ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’عمران خان کے پاس عدالت میں پیش کرنے کے لیے کوئی دفاع موجود نہیں ہے تو وہ عدالتوں کو دھمکاتا پھر رہا ہے کہ اسے کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ وہ عدالت میں پیشی کے وقت جواب بھیج دیتا ہے کہ میں نے کچھ نہیں اور اور ساتھ ہی پلستر لگی تصویر جاری کر دی جاتی ہے۔‘ 
مریم نواز نے کہا کہ ’عدلیہ کے اس دوہرے معیار پر ہم بات کرنے میں حق بجانب ہیں۔ وقت آنے پر پبلک فورمز پر بھی اس معاملے کو اٹھائیں گے کیونکہ اگر ہم عدالتوں کے سامنے ایسا رویہ اختیار کرتے تو وہ ہمیں گھروں سے اٹھوا کر پیش کر دیتے۔‘ 
انھوں نے کہا کہ ’توشہ خانہ کیس اور فارن فنڈنگ کیس میں تو عدلیہ کے سامنے ثبوتوں کے پلندے پڑے ہیں۔ اس کے بعد بھی اگر عدلیہ عمران خان کے خلاف کارروائی نہیں کرتی تو عوام اس پر سوال ہی اٹھا سکتے ہیں جو عدلیہ کے تشخص کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مخالفت برائے مخالفت نہیں چاہتے۔

مسلم لیگ ن کے ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کو پس پشت ڈال کر حکومت میں آنے سے متعلق سوال پر مریم نواز نے کہا کہ ’جب اسٹیبلشمنٹ پاکستان کی سیاست میں مداخلت کی تو ہم نے نام لے کر ان کی مداخلت کے خلاف بات کی۔ اب اگر اسٹیبلشمنٹ نے سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو ہمیں ان کے فیصلے کو سراہنا چاہیے۔‘ 
ان کا کہنا تھا ’ہم نے جنرل راحیل شریف کو توسیع دینے کی مخالفت کی تو اس بھگتا بھی جس کے نتیجے میں ڈان لیکس اور پانامہ اور اقامہ جیسے کیس ہوئے۔ آئیندہ بھی جب سول بالا دستی کا معاملہ آیا تو مسلم لیگ ن بالخصوص نواز شریف اور مریم نواز قوم کو مایوس نہیں کریں گے۔‘ 

مریم نواز نے کہا کہ مسلم لیگ نے انتخابات کی تیاری شروع کر دی ہے۔ (فوٹو: مسلم لیگ ن)

انھوں نے کہا کہ ’جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہماری حکومت اسٹیبلشمنٹ کی سہولت کاری سے آئی وہ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ کیسی سہولت کاری ہے کہ نواز شریف پر اب بھی مقدمات ہیں، ان کے ساتھی آج بھی پیشیاں بھگت رہے ہیں۔
تاہم جب مریم نواز سے پوچھا گیا کہ ان کی جماعت جنرل باجوہ یا جنرل فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل یا دیگر قانونی کارروائی کا ارادہ رکھتی ہے تو انھوں نے جواب دینے سے گریز کیا۔ 

پی ڈی ایم انتخابی اتحاد نہیں ہے۔

مریم نواز نے کہا کہ ’مسلم لیگ نے انتخابات کی تیاری شروع کر دی ہے۔ اسی وجہ سے ہر ایک ڈویژن میں جا کر ایک ایک حلقے کے امیدواروں کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ایک بھی حلقہ ایسا نہیں جس کے بارے میں اور وہاں سے مسلم لیگ ن کے امیدواروں کے بارے میں بنیادی معلومات کا علم نہ ہو۔‘ 
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’پی ڈی ایم ایک سیاسی اتحاد ہے۔ ہم نے مل کر انتخاب لڑنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ جب بھی انتخابات ہوں گے چاہے وہ سوبائی ہوں یا قومی انتخابات۔ ایک ساتھ ہوں یا الگ الگ مسلم لیگ ن بحیثیت جماعت ان میں حصہ لے گی۔‘ 

عدم اعتماد کا فیصلہ درست تھا۔‘ 

مریم نواز کا کہنا تھا کہ ’عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے پیچھے ہٹ جانے کی وجہ سے اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔ عمران خان واحد وزیراعظم ہیں جنھیں آئینی طریقے سے تحریک عدم کے ذریعے ہٹایا گیا۔ عمران خان خود کہہ چکے ہیں کہ ایوان میں ووٹنگ کے لیے وہ جنرل فیض سے فون کروایا کرتے تھے۔ اب جب فون نہجں آیا تو لوگوں نے اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کیا۔‘ 

مریم نواز نے کہا کہ مسلم لیگ ن کو اپنا ووٹ بنک خراب کرنے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ (فوٹو: مسلم لیگ ن فیس بک)

ان کا کہنا تھا کہ ’عدم اعتماد کا فیصلہ اس لیے درست تھا کہ عمران خان اور ان کے ساتھی اگلے 12 سال کی منصوبہ بندی رچکے تھے اور اس حوالے سے تعیناتیاں بھی کرچکے تھے۔ یہ بھی طے ہوچکا تھا کہ فیض حمید آرمی چیف ہوں گے۔ اس لیے ان کی اس منصوبہ بندی کو ناکام بنانے کے لیے عدم اعتماد لائی گئی۔‘ 

مہنگائی کا کوئی توڑ نہیں۔

مریم نواز نے کہا کہ ’مسلم لیگ ن کو اپنا ووٹ بنک خراب کرنے کا کوئی شوق نہیں ہے کہ وہ جان بوجھ کر یا خوشی سے مہنگائی کر رہی ہے۔ عمران خان نے جاتے ہوئے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی جو خلاف ورزیاں کی ہیں اس سے ان کی شرائط مزید سخت ہوگئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت ملکی معیشت کی حالت ایک ملبے کی سی ہے جس کو دیدہ زیب عمارت بنانے میں وقت لگے گا۔ چار سالوں کی ماری ہوئی معیشت چند مہینوں میں اپنے قدموں پر کھڑی نہیں ہوسکتی۔‘ 

شیئر: