Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آڈیو لیکس، پاکستان بار کونسل کا جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا اعلان

پاکستان بار کونسل نے ریٹائرڈ جرنیلوں اور ججوں کو دوبارہ ملازمتیں نہ دینے کا بھی مطالبہ کیا (فائل فوٹو: اے پی)
پاکستان بار کونسل اور صوبائی بار کونسلز کے عہدیداران نے ایک اجلاس کے بعد سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔
منگل کو پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے چیئرمین حسن رضا پاشا نے دیگر عہدیداروں کے ہمراہ سپریم کورٹ کے باہر پریس کانفرنس میں کہا کہ ’آڈیو لیکس کے بعد چیف جسٹس سے مطالبہ کیا تھا کہ اس معاملے کی تحقیقات کی جائیں مگر رجسٹرار کی جانب سے کوئی جواب نہ دیا گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ کی جانب سے جسٹس مظاہر اکبر نقوی کی مبینہ آڈیو لیکس پر کوئی کارروائی نہ کیے جانے کے بعد ہنگامی اجلاس بلایا گیا جس میں پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان اور اسلام آباد بار کونسل کے عہدیداروں نے شرکت کی۔‘
پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے چیئرمین کے مطابق تمام بار کونسلز نے متفقہ فیصلہ کیا ہے کہ جسٹس مظاہر اکبر نقوی کے خلاف آئندہ ہفتے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنسز دائر کریں گے جس میں انضباطی کارروائی کی استدعا کی جائے گی۔
’یہ فیصلہ پاکستان بھر کے وکلا کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق کیا گیا۔ یہ ریفرنس آئندہ ہفتے تک فائل کر دیں گے۔‘
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ’جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ریفرنس کے فیصلے پر نظرثانی کی اپیل واپس لے کیونکہ گذشتہ حکومت نے ریفرنس بدنیتی پر دائر کیا تھا جس کا مقصد فاضل جج کو دباؤ میں لانا تھا۔‘
پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ ’اجلاس میں حکومت سے وکلا کو تحفظ دینے کے لیے مجوزہ مسودے کو قانون کی شکل دینے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔‘
’ملک بھر میں یہ دیکھا جا رہا ہے کہ تحفظ نہ ہونے پر وکلا کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اس لیے لائرز پروٹیکشن ایکٹ بنایا جائے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آئین کے آرٹیکل 184 تین کے تحت اگر سپریم کورٹ ازخود نوٹس لے کر کوئی فیصلہ کرتی ہے اس پر اپیل دائر کرنے کا حق ہونا چاہیے اور اس کے لیے آئین میں ترمیم کی جائے۔‘
پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے چیئرمین نے بتایا کہ ’اجلاس میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ ریٹائرڈ جرنیلوں اور ججوں کو دوبارہ ملازمتیں نہ دی جائیں کیونکہ اُن کی پینشن اور مراعات پہلے ہی زیادہ ہیں۔‘

شیئر: