بارکھان واقعہ: متاثرہ خاندان کا چار سال بعد ملاپ، احتجاجی دھرنا ختم
بارکھان واقعہ: متاثرہ خاندان کا چار سال بعد ملاپ، احتجاجی دھرنا ختم
جمعہ 24 فروری 2023 18:10
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
پولیس نے خان محمد اور ان کے خاندان کو حفاظتی تحویل میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ (فائل فوٹو:بلوچستان پولیس)
بلوچستان کے ضلع بارکھان میں مبینہ طور پر صوبائی وزیر کی نجی جیل میں قید خاتون اور اس کے پانچ بچوں کو بازیابی کے بعد کوئٹہ منتقل کردیا گیا جہاں ان کی چار سال بعد شوہر خان محمد مری سے ملاقات کرا دی گئی ہے جبکہ مری قبائل کا دھرنا بھی چار روز بعد ختم ہو گیا ہے۔
متاثرہ افراد کو کوہلو میں ہزاروں افراد کے احتجاج اور مطالبے پر بارکھان کی بجائے رات گئے کوئٹہ پہنچایا گیا جہاں پولیس ٹریننگ سینٹر میں ان کی ملاقات کرائی گئی۔
اس موقعے پر جذباتی مناظر دیکھے گئے۔ بعد ازاں انہیں پولیس لائن کوئٹہ منتقل کر دیا گیا۔
لیویز نے خاتون اور بچوں کو کوہلو، ڈیرہ بگٹی اور دکی کے سرحدی علاقوں سے مختلف کارروائیوں میں بازیاب کرانے کا دعویٰ کیا تھا۔
خان محمد مری اپنے موقف پر قائم
اہل خانہ کی بازیابی اور ملاقات کے بعد ایک ویڈیو بیان میں خان محمد مری نے ایک بار پھر الزام لگایا کہ ان کے بیوی بچوں کو صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران نے قید میں کر رکھا تھا۔ اس موقعے پر خان محمد مری کے بیٹے نے بھی یہی بیان دیا۔
مری اتحاد کے رہنما جہانگیر مری نے اردو نیوز کو بتایا کہ گراں ناز اور ان کے بچوں نے پولیس کے سامنے ہمیں بتایا کہ انہیں صوبائی وزیر نے قید کر رکھا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بیٹوں کی لاشیں دیکھنے پر ماں کی حالت غیر ہو گئی ہے۔
جہانگیر مری کے مطابق ’اپنے پیاروں کے مرنے کے غم کے باوجود ان کے چہروں پر ہم نے قید سے آزادی کا اطمینان بھی دیکھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ پولیس نے سکیورٹی کے پیش نظر خان محمد اور ان کے خاندان کو حفاظتی تحویل میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
‘بیٹوں کی لاشیں دکھائی جائیں تاکہ تسلی ہو‘
اس سے پہلے خان محمد مری کی اہلیہ اور پانچ بچوں کی بحفاظت کوئٹہ منتقلی کے بعد دھرنے کے منتظم مری اتحاد کے جنرل سیکریٹری جہانگیر مری اور قبائلی رہنما سینیٹر آغا عمر احمد زئی نے مشترکہ پریس کانفرنس میں احتجاج ختم کرنے کا اعلان کیا۔
تاہم دھرنے کے منتظمین اور مری قبائل کے افراد کی جانب سے احتجاج ختم کرنے کی دھرنے میں شریک بعض افراد نے مخالفت کی اور لاشیں زبردستی لے جانے سے روک دیا۔
اس معاملے پر کئی گھنٹوں تک دونوں گروپوں میں اختلاف رہا۔ اس صورتحال میں خان محمد مری اور ان کی اہلیہ نے بھی ایک ویڈیو بیان جاری کیا اور لاشوں کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔
گراں ناز کا کہنا تھا کہ ’انہیں بیٹوں کی لاشیں دکھائی جائیں تاکہ انہیں تسلی ہو۔‘
بعد میں مری قبائل کے افراد لاشیں لے کر روانہ ہو گئے اور احتجاجی دھرنا ختم ہو گیا۔
ادھر پولیس کی اعلیٰ سطح کی تفتیشی ٹیم نے بارکھان کا دورہ کیا اور متعلقہ افراد کے بیانات ریکارڈ کئے۔ بلوچستان حکومت نے بارکھان کے ضلعی پولیس سربراہ نور محمد بڑیچ کو تبدیل کرکے ان کی جگہ ایس پی نجیب پندرانی کو تعینات کر دیا۔
یاد رہے کہ بارکھان میں 20 فروری کو ایک کنویں سے تین افراد کی لاشیں ملی تھیں جن میں سے دو کی شناخت بلوچستان کے وزیر تعمیرات و مواصلات کے سابق محافظ خان محمد مری کے بیٹوں کے طور پر ہوئی ۔ جبکہ تیسری لاش ایک 17 سالہ لڑکی ہے جس کی پہلے غلط شناخت خان محمد مری کی اہلیہ طور پر ہوئی تھی۔
مری اتحاد کے رہنما عبدالقیوم مری کے مطابق یہ لاش بارکھان سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کی بیٹی کی ہے جس نے درخواست کی ہے کہ وہ کوئٹہ نہیں آ سکتے اس لیے لاش کوہلو پہنچائی جائے۔