Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق، قانون میں ترمیم کیوں نہیں کی جا سکتی؟ عدالت

عمران خان کے وکیل نے الیکشن ایکٹ میں موجودہ پارلیمان کی ترمیم کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی۔ فوٹو: اردو نیوز
پاکستان کی سپریم کورٹ نے اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے مقدمے کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل سے پوچھا ہے کہ عدالت پہلے دیے گئے فیصلے سے مختلف حکم کیسے دے سکتی ہے؟
جمعے کو عدالتِ عظمیٰ کے تین رکنی بینچ کے سامنے عمران خان، شیخ رشید اور دیگر درخواست گزاروں کے وکلا کے ساتھ الیکشن کمیشن اور نادرا نے نمائندے بھی پیش ہوئے۔
جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر اور جسٹس مظاہر اکبر نقوی پر مشتمل بینچ نے درخواستوں کی سماعت کی۔
ایک درخواست گزار کے وکیل عارف چوہدری نے عدالت کو بتایا کہ نادرا نے رپورٹ جمع کراتے ہوئے مؤقف اپنایا ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے حق کے قانون پر عمل درآمد کے لیے طریقہ کار وضع کیا جا رہا ہے اور اگر الیکشن کمیشن تعاون کرتا ہے تو ایک سال میں ممکن ہو جائے گا۔
وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا معاملہ الیکشن کمیشن میں رُکا ہوا ہے، اگر وہ چاہیں تو جلد حل ہو سکتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے وکیل سے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کو ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا وہاں درخواست مسترد ہونے پر معاملے سپریم کورٹ آیا۔ اس کے علاوہ دو درخواستیں عوامی مفاد کے آرٹیکل 184 تین کے تحت دائر کی گئیں۔
انہوں نے وکیل سے کہا کہ سنہ 2017 کے الیکشن ایکٹ کی شق 94 کو موجودہ پارلیمان نے سنہ 2022 میں دوبارہ اصل حالت میں بحال کر دیا ہے۔ اس سے قبل سنہ 2018 میں سپریم کورٹ اس ایکٹ کو آئین کے مطابق قرار دے چکی ہے جبکہ سنہ 2021 میں اُس وقت کی حکومت نے پارلیمان کے ذریعے اس میں ترمیم کی تھی۔
جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ جس قانون کو عدالت نے آئین کے مطابق قرار دیا تھا اور جس کو پارلیمان نے اصل حالت میں بحال کر دیا ہے، آپ عدالت سے چاہتے ہیں کہ اُس کو غیرآئینی قرار دیا جائے، اس پر کیا دلائل ہیں؟
وکیل نے کہا کہ عدالت ہدایات جاری کرے اور اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق پرانے قانون کے تحت دلائے اور نئی ترمیم کو کالعدم قرار دے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ اس میں غیرآئینی کیا ہے؟ عدالت نے پہلے بھی اس قانون کی شق کو آئین کے مطابق قرار دیا تھا اور صرف ایک لفظ کو تبدیل کرنے کے لیے کہا تھا۔
جسٹس منیب اختر نے عمران خان کے وکیل سے پوچھا کہ اب آپ عدالت سے کیا چاہتے ہیں؟
وکیل عزیر بھنڈاری نے جواب دیا کہ قانون میں ترمیم کو کالعدم قرار دیا جائے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جب ایک بار پارلیمان قانون میں ترمیم کر سکتی ہے تو دوسری بار وہی پارلیمان اُس قانون کو اصل صورت میں بحال کیوں نہیں کر سکتی۔ بتائیں آئینی اصول کے تحت پارلیمان ایسا کیوں نہیں کر سکتی؟
انہوں نے وکیل سے کہا کہ اس آئینی نکتے پر تیاری کر کے آئیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے وکیل عزیر بھنڈاری کی ریسرچ کی صلاحیتوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس نکتے پر تیاری کے ساتھ عدالت کی معاونت کریں۔
الیکشن کمیشن کے نمائندے نے بتایا کہ رپورٹ تیار کر لی ہے اور سپریم کورٹ میں جمع کرائی جا رہی ہے۔
سپریم کورٹ نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔

شیئر: