پاکستان سے انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے اقوام متحدہ کی سفارشات کیا؟
پاکستان سے انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے اقوام متحدہ کی سفارشات کیا؟
بدھ 8 مارچ 2023 5:28
زین الدین احمد، خرم شہزاد، اردو نیوز
2021-22 میں ایران کے ذریعے 16 ہزار 678 افراد غیرقانونی طور پر ترکی پہنچے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان سے انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے اقوام متحدہ کے ماہرین نے 10 سفارشات پیش کی ہیں جن میں متعلقہ محکموں کی استعداد بڑھانے کے علاوہ مہاجرین کی سمگلنگ سے متعلق بین الااقوامی معاہدے پر دستخط کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
ان سفارشات کی تفصیلات ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب گذشتہ ہفتے اٹلی کے قریب حادثے کا شکار ہونے والی غیرقانونی مہاجرین کی کشتی ڈوبنے سے پاکستانیوں سمیت 60 سے زائد افراد کی ہلاکت نے دنیا بھر میں اس مسئلے کو ازسرنو اجاگر کیا۔
اس کشتی حادثے میں ہلاک ہونے والے دیگر افراد کے ساتھ پاکستان کی خواتین ہاکی ٹیم کی سابق کھلاڑی شاہدہ رضا اور پشاور کے 14 سالہ اذان آفریدی بھی شامل تھے جو اعلٰی تعلیم کی غرض سے یورپ جا رہے تھے۔
انسانوں کی سمگلنگ کے حوالے سے کام کرنے والے ماہرین کے مطابق پاکستان سے یورپ اور آسٹریلیا کے تین زمینی، فضائی اور سمندری راستے ہیں جہاں سے پاکستان کے علاوہ افغانستان، بنگلہ دیش اور خطے کے دیگر ممالک کے افراد غیرقانونی طور پر نقل مکانی کرتے ہیں۔
اس حوالے سے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے منشیات اور جرائم، جو بین الااقوامی سطح پر انسانی سمگلنگ کے خاتمے کے لیے کردار ادا کرتا ہے، نے اردو نیوز کے سوالات کے جواب میں ایک ای میل میں بتایا ہے کہ سال 2021-22 میں ایران کے ذریعے 16 ہزار 678 افراد غی قانونی طور پر ترکی پہنچے، جبکہ غیرقانونی طور پر ایران جانے والوں کی تعداد 25 ہزار 268 تھی۔
ای میل میں بتایا گیا ہے کہ ان غیرقانونی نقل و حمل کے راستوں کو بند کرنے اور پاکستان کے ذریعے انسانی سمگلنگ کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ نے حکومت پاکستان کو 10 اقدامات اٹھانے کی سفارش کی ہے۔
ان سفارشات میں سب سے مرکزی قدم اقوام متحدہ کے اس معاہدے پر دستخط کرنا ہے جو مہاجرین کی غیرقانونی منتقلی سے متعلق ہے۔
اس معاہدے پر دستخط کے بعد پاکستان اقوام متحدہ کے ان تمام قوانین و ضوابط کا پابند ہو جائے گا جن کے تحت اس کی سرحدوں سے غیرقانونی نقل وحمل کا خاتمہ کرنا ضروری ہے۔
اقوام متحدہ کے تجویز کیے گئے دوسرے اقدامات میں متعلقہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدلیہ کے اراکین کی انسانی سمگلنگ اور ٹریفکنگ کے قوانین سے متعلقہ استعداد کار میں اضافہ، قومی سطح پر سمگلنگ اور ٹریفکنگ کا شکار بننے والے افراد کی حفاظت اور مدد کے مربوط نظام کا قیام ہے۔
اس کے علاوہ سینیئر، جونیئر اور درمیانے درجے کے پولیس افسران کی انسانوں کی ٹریفکنگ کے متعلق تربیت کے نصاب کا نفاذ، قانون نافذ کرنے والی خواتین افسران کی جدید تحقیقاتی تکنیک اور (سمگلنگ سے) متاثرہ افراد کی حفاظت اور مدد کرنے کے خطوط پر استعداد کار میں اضافہ، علاقائی اور بین الااقوامی تعاون میں اضافہ، الیکٹرونک شہادتیں اکٹھی کرنے کے لیے اہلکاروں کی صلاحیتوں میں اضافہ، اور قانونی امداد اور انسانی سمگلنگ کے بین الااقوامی مقدمات میں تعاون کے حوالے سے اہلکاروں کی صلاحیتوں میں اضافہ شامل ہے۔
انسانی سمگلنگ اور ٹریفکنگ کو روکنے کے لیے پاکستان کا نیشنل ایکشن پلان
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے منشیات و جرائم کے مطابق پاکستان نے اس حوالے سے کچھ اقدامات کیے ہیں جن میں انسانی سمگلنگ اور ٹریفکنگ سے متعلقہ قوانین کی منظوری، ایف آئی اے کی طرف سے انسانی سمگلنگ اور ٹریفکنگ کے خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان 2021-25 کا نفاذ، ملک گیر سطح پر ٹریفکنگ کے خلاف کمیٹیوں کا قیام، ایف آئی اے اور صوبائی اتھارٹیوں کے استعداد کار میں اضافے کی حکمت عملی، ایف آئی اے اکیڈمی میں انسانی سمگلنگ اور ٹریفکنگ کے متعلق کورسز کا اجرا، پنجاب پولیس کے سات تربیتی سکولوں میں مقامی انسانی ٹریفکنگ کو روکنے اور اس کے شکار لوگوں کی مدد کے لیے نصاب کا نفاذ شامل ہے۔
اس حوالے سے ایف آئی اے کے ایک سینیئر اہلکار نے اردو نیوز کو بتایا کہ اقوام متحدہ کی تجاویز کی روشنی میں پاکستان نے بارڈر کنٹرول سخت کرنے اور اندرونی طور پر انسانی سمگلنگ میں ملوث نیٹ ورکس کی سرکوبی کے لیے اقدامات کیے ہیں، جس سے اس مسئلے کو حل کرنے میں مدد ملی ہے، تاہم اس میں واضح فرق دیہاتوں اور چھوٹے شہروں میں آگاہی مہم چلانے سے پڑے گا۔
ہوٹلوں اور ٹرانسپورٹ کا عملہ انسانی سمگلنگ روکنے کا اہم ذریعہ
انسانی سمگلنگ کے موضوع پر کام کرنے والے سماجی کارکن وقار حیدر اعوان، جو اس کی روک تھام کے لیے تربیت بھی فراہم کرتے ہیں، نے اقوام متحدہ کی تجاویز پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کو زمینی سطح پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ٹریفکنگ اور سمگلنگ کے متاثرہ افراد کی مدد، حفاظت، پناہ اور معاشرے میں بحالی کے اقدامات ابھی تک بہت کمزور ہیں، جس کی وجہ سے وہ حکام کے ساتھ تعاون نہیں کرتے۔
’قوانین کے نفاذ کے حوالے سے کچھ کام تو ہوا ہے، لیکن ابھی بھی پراسیکیوشن کو اہل بنانے کے لیے بہت کام کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ نے متعلقہ افراد کی تربیت کے لیے کچھ کام کیا ہے، لیکن ان کی بھی لوگوں تک مکمل رسائی نہیں ہے۔ جب تک حکومت اور پولیس کے تربیتی ادارے اس کو مکمل طور پر نافذ العمل نہیں کرتے اور سٹیٹ آف دی آرٹ انویسٹی گیشن اور ثبوت اکٹھے کرنے کے طریقے اپنا کر کیس آگے نہیں بڑھاتے تب تک پراسیکیوشن انسانی سمگلنگ میں ملوث ملزمان کو سزا دلوانے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔‘
وقار حیدر اعوان کا کہنا تھا کہ ’اب تک کیے گیے اقدامات گورننس کے حوالے سے ناکافی ہیں۔ بار ایسوسی ایشنز (وکلا)، صحافیوں، ہوٹل اور ٹرانسپورٹ انڈسٹری کے اراکین کی بھی تربیت انتہائی ضروری ہے کیونکہ یہ شعبے آگاہی پھیلانے، قوانین کے عملی نفاذ، اور ٹریفکنگ اور سمگلنگ کو عملی طور پر روکنے میں انتہائی موثر ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ہوٹلوں اور ٹرانسپورٹ کے عملے کی اس حوالے سے آگاہی اور تربیت انتہائی ضروری ہے کیونکہ یہ شعبے ٹریفکنگ اور سمگلنگ میں نمایاں طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔
’ہوٹلوں اور ٹرانسپورٹ میں کام کرنے والے افراد اس قابل ہونے چاہییں کہ وہ ایجنٹوں کا شکار ہونے والے ٹریفکنگ اور سمگلنگ کے متاثرین کی فوری شناخت کر سکیں اور ان کے بارے میں متعلقہ لوگوں کو اطلاع دے سکیں۔‘