Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کون کون سی شخصیات نے تحائف توشہ خانہ میں جمع کرا دیے؟

گزشتہ شب وفاقی حکومت نے 20 سال کے دوران توشہ خانہ میں آنے والے تحائف کا ریکارڈ پبلک کر دیا ہے جس سے جہاں متعدد صدور، وزرائے اعظم، وزراء اور اعلیٰ سرکاری حکام مستفید ہوئے ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ سربراہان مملکت و حکومت کے ساتھ جانے والے صحافی اور غیر سرکاری شخصیات بھی نے بھی تحائف وصول کیے ہیں۔   
توشہ خانہ قواعد کے تحت سرکاری شخصیات اور افسران پر لازم ہے کہ بیرون ملک واپسی پر وہاں سے ملنے والے تحائف توشہ خانہ میں جمع کرائیں۔ تاہم طے شدہ طریقہ کار کے تحت اگر وہ تحائف اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں تو رکھ سکتے ہیں۔
توشہ خانہ قواعد کے تحت غیرسرکاری شخصیات سرکاری طور پر کوئی تحفہ قبول نہیں کر سکتیں۔ لہذا اگر کسی کو تحفہ ملا ہے تو وہ توشہ خانہ میں جمع کرانے کا پابند نہیں ہے۔  
تاہم کابینہ ڈویژن حکام کے مطابق جن غیرسرکاری شخصیات، صدر و وزیرعظم کے اہل خانہ یا صحافیوں کے نام فہرست میں موجود ہیں ان کو سرکاری طور پر وفد کا حصہ ظاہر کیا گیا تھا۔ 
اس وجہ سے ان کو تحائف ملے اور قواعد کے تحت انہیں یہ تحائف نہ صرف توشہ خانہ میں ظاہر کرنا پڑے بلکہ ان میں اگر کسی نے تحفہ اپنے پاس رکھنے کی خواہش ظاہر کی تو اسے طے شدہ رقم ادا کر کے ہی اسے اپنے پاس رکھنے دیا گیا۔  
حکام کے مطابق فرسٹ فیملیز رسماً تحائف وصول کرنے اور انہیں قواعد کو فولو کرتے ہوئے انھیں پانے پاس رکھنے کی حقدار ہیں۔   
سابق صدور اور وزرائے اعظم کے اہل خانہ بھی تحائف حاصل کرنے والوں میں شامل  
  توشہ خانہ ریکارڈ کے مطابق جنرل پرویز مشرف، شوکت عزیز، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، نواز شریف، شاہد خاقان عباسی، ممنون حسین، عارف علوی سمیت متعدد سرکاری افسران اور اعلیٰ حکام کی بیگمات نے بھی بیرون ملک دوروں سے ملنے والے تحائف اپنے پاس رکھے۔   
بیگم پرویز مشرف کو 15 جبکہ بیگم شوکت عزیز کو 40 تحائف ملے جو انھوں نے اپنے پاس رکھے۔ بیگم یوسف رضا گیلانی ایک، بیگم راجہ پرویز اشرف ایک، بیگم نواز شریف 12، بیگم شاہد خاقان عباسی اور بیگم عمران خان نے چار چار تحائف حاصل کیے۔   
بیگم ممنون حسین کو 14 جبکہ بیگم عارف علوی کو 34 تحائف ملے جن میں سے دو انھوں نے توشہ خانہ میں جمع کرا دیے، 22 اپنے پاس رکھے اور باقی ابھی تک پروسیس میں ہیں۔  

نواز شریف کے خاندان کے افراد نے بھی تحائف اپنے پاس رکھے (فوٹو: اے ایف پی)

یوسف رضا گیلانی کی بیگم کے علاوہ بیٹوں، بیٹی، بھتیجے، بھتیجے کی بیگم، ان کے دوست اور دوست کی بیوی نے بھی توشہ خانہ سے تحفے حاصل کیے۔   
نواز شریف کی بیگم، بیٹی مریم نواز، بیٹے حسین نواز، شاہد خاقان عباسی کے بیٹوں اور بہو نے بھی تحائف اپنے پاس رکھے۔   
سابق صدر آصف زرداری اور سابق صدر ممنون حسین کے بیٹے اور بیٹیوں نے بھی تحفے حاصل کیے۔   
توشہ خانہ سے گھڑیاں لینے والی شخصیات  
2002 سے 2022 تک ملنے والے تحائف سے مستفید ہونے والوں میں ایک درجن کے قریب صحافی بھی شامل ہیں۔ 
صحافیوں کے علاوہ ایم کیو ایم کے بانی سربراہ الطاف حسین کا نام بھی ریکارڈ کا حصہ ہے جنھوں نے غیرسرکاری شخصیت ہونے کے باوجود توشہ خانہ سے کچھ تحائف حاصل کیے، تاہم ان کی قیمت محض 8 ہزار 400 روپے بنتی تھی۔ اس لیے وہ یہ تحائف اپنے پاس رکھنے کے مجاز تھے۔   
کون سی شخصیات نے تحائف توشہ خانہ میں جمع کرا دیے؟  

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو 2022 میں غیرملکی دورے کے دوران تین لاکھ 30 ہزار روپے مالیت کا ایک شو پیس ملا (فوٹو: سپریم کورٹ)

توشہ خانہ ریکارڈ کے مطابق بہت سی شخصیات نے جہاں قیمتی تحائف اپنے پاس رکھنا مناسب سمجھا وہیں کچھ تحائف توشہ خانہ میں جمع بھی کرائے۔ اپ لوڈ ہونے والی ویب سائٹ کے مطابق سینیئر صحافی رؤف کلاسرہ نے 2010 میں ایک لاکھ 20 ہزار روپے مالیت کی گھڑی توشہ خانہ میں جمع کرا دی۔ وہ چاہتے تو 22 ہزار روپے دے کر اپنے پاس رکھ سکتے تھے۔ 
عدلیہ میں سے کس کے نام توشہ خانہ ریکارڈ میں موجود ہیں؟  
سیاسی شخصیات کے علاوہ چار ججز کے نام بھی فہرست میں شامل ہیں جن میں جسٹس شیخ ریاض احمد جو 2002 میں قائم مقام صدر تھے، ان کے علاوہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال بطور چیئرمین ایبٹ آباد کمیشن اور جسٹس محمد بشیر جہانگیری وفاقی محتسب شامل ہیں۔ 
ریکارڈ کے مطابق جسٹس شیخ ریاض احمد کو 2002 میں 10 ہزار مالیت کے دو تحائف ملے جو انھوں نے قواعد کے تحت اپنے پاس رکھے۔ جسٹس محمد بشیر جہانگیری کو بھی پانچ ہزار مالیت کے دو تحفے ملے اور قواعد کے مطابق انھوں نے اپنے پاس رکھ لیے۔  
جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کو دو تحفے ملے جن میں ایک انھوں نے توشہ خانہ میں جمع کرایا۔ جس کی مالیت 10 ہزار روپے تھی۔  
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو 2022 میں غیرملکی دورے کے دوران تین لاکھ 30 ہزار روپے مالیت کا ایک شو پیس ملا جو انھوں نے توشہ خانہ میں ڈیکلیئر کیا اور ریکارڈ کے مطابق اسے سپریم کورٹ میں آویزاں کر دیا گیا۔  

شیئر: