پاکستان کی وفاقی کابینہ نے توشہ خانہ میں آنے والے تحائف کے حوالے سے نئی پالیسی کا اجرا کر دیا ہے جس کے تحت صدر، وزیراعظم، وزراء اور اعلٰی سول و فوجی افسران اور ججز تین سو ڈالر سے کم مالیت کا تحفہ مقررہ قیمت کی ادائیگی کے بعد حاصل کر سکیں گے۔
اس پالیسی کے تحت مہنگے تحفوں کی نیلامی کی جائے گی اور عوام بھی نیلامی میں حصہ لے سکیں گے۔
وفاقی کابینہ نے آٹھ مارچ کو نئی توشہ خانہ پالیسی کی منظوری دی جسے کابینہ ڈویژن نے اپنی ویب سائٹ پر شائع کر دیا ہے۔
مزید پڑھیں
-
توشہ خانے سے سابق وزراء اعظم نے کون سے تحائف کتنے میں خریدے؟Node ID: 663331
-
توشہ خانے سے کون کیا لے کر گیا؟، تفصیلات ویب سائٹ پر ڈال دی گئیںNode ID: 749931
-
کون کون سی شخصیات نے تحائف توشہ خانہ میں جمع کرا دیے؟Node ID: 750106
نئی پالیسی 14 پیراگرافس پر مبنی ہے جس میں کہا گیا کہ ریاستی یا حکومتی عہدیدار بیرون ملک دورے کے دوران ملنے والے تحائف توشہ خانہ میں جمع کرائیں گے۔
’اگر کسی نے 30 دن میں توشہ خانہ کو آگاہ نہ کیا اور چیکنگ پر تحفہ اس کے پاس پایا گیا تو اس کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔‘
اسی طرح اگر کوئی غیرملکی وفد پاکستان کا دورہ کرتا ہے تو دفتر خارجہ چیف آف پروٹوکول یا اس کے نمائندے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی طرف پاکستانی حکام کو دیے گئے تحائف کی فہرست توشہ خانہ کو فراہم کرے۔ اگر پاکستانی وفد بیرون ملک کا دورہ کر رہا ہوگا تو پھر یہ ذمہ داری اس ملک میں متعین پاکستانی سفیر کی ہوگی۔
’نئی پالیسی کے تحت ایسی اشیاء جن کے خراب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے اور انھیں فوری طور پر استعمال میں لایا جا سکتا جیسے مثال کے طور پر کھانے پینے کی اشیا تو وہ جس بھی سرکاری شخصیت کو ملیں تو وہ توشہ خانہ میں جمع کرائے یا رپورٹ کیے بغیر بھی استعمال کر سکتا ہے۔‘

توشہ خانہ پالیسی کے تحت ’پاکستان کے دورے پر آنے والے غیرملکی سربراہان یا حکام سے گریڈ ایک سے چار سے اوپر کے افسران کیش ایوارڈ وصول کرنے کے مجاذ نہیں ہیں۔ اگر کسی وجہ سے کیش ایوارڈ وصول کرنے سے انکار ممکن نہ رہے تو اسے وصول کرنے کے فوری بعد قومی خزانے میں جمع کرانا لازمی ہوگا اور اس کی رسید توشہ خانہ مین دینا ہو گی۔‘
نئی پالیسی میں سربراہ مملکت اور سربراہ حکومت کے علاوہ تمام ریاستی اور سرکاری حکام پر پاکستان مین متعین سفارت کاروں سے اپنے اور اہل خانہ کے لیے تحائف وصول کرنے کے مجاز نہیں ہیں اور اگر ناگزیر وجوہات کی بنیاد پر تحفہ لینے پڑ جائے تو اسے فوری طور پر توشہ خانہ میں جمع کرانا ہوگا اور ریاست کی ملکیت ہوگا۔
تاہم سربراہ مملکت و حکومت اور ان کے اہل خانہ کو ملنے والے تحائف قیمت کے تعین کے لیے توشہ خانہ میں جمع ہوں گے جنھیں وہ طے شدہ طریقہ کار کے تحت مقررہ قیمت ادا کرکے حاصل کر سکیں گے۔
یہ شرط اداروں کو ملنے والے تحائف اور عطیات پر لاگو نہیں ہوں گی۔
نئی توشہ خانہ پالیسی کے تحت ’300 ڈالر سے کم مالیت کے تحائف قیمت کے تعین کے بعد مقررہ قیمت ادا کر کے حاصل کیے جا سکیں گے۔ اس سے زائد مالیت کے تحائف براہ راست ریاست کی ملکیت بن جائیں گے۔ تاہم قیمتی اور نادر تحائف کا باضابطہ ریکارڈ بنے گا اور انھیں سرکاری عمارتوں میں آویزاں کیا جائے گا۔‘
تحائف میں ملنے والی گاڑیاں سینٹرل پُول اور قیمتی نوادرات سرکاری مقامات پر سجائے جائیں گے۔
’تحائف کی مالیت کا تعین ایف بی آر کے ماہر افسران اور نجی فرم سے کروایا جائے گا جبکہ تحفے میں ملنے والا اسلحے کی مالیت کا تعین نجی فرم اور اسلحہ ساز فیکٹری پی او ایف کرے گی۔‘
