الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ کاز لسٹ کے مطابق ’توشہ خانہ ریفرنس کے فیصلے کا وقت جمعے کی دوپہر دن دو بجے مقرر کر کے عمران خان سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کیے گئے۔‘
توشہ خانہ کیس ہے کیا؟
رواں سال اگست میں الیکشن کمیشن میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ایم این ایز کی درخواست پر سپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے الیکشن کمیشن کو عمران خان کی نااہلی کے لیے ایک ریفرنس بھیجا تھا۔
ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ ’عمران خان نے اپنے اثاثوں میں توشہ خانہ سے لیے گئے تحائف اور ان تحائف کی فروخت سے حاصل کی گئی رقم کی تفصیل نہیں بتائی۔‘
ریفرنس کے مطابق عمران خان نے دوست ممالک سے توشہ خانہ میں حاصل ہونے والے بیش قیمت تحائف کو الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے اپنے سالانہ گوشواروں میں دو سال تک ظاہر نہیں کیا اور یہ تحائف صرف سال 2020-21 کے گوشواروں میں اس وقت ظاہر کیے گئے جب توشہ خانہ سکینڈل اخبارات کی زینت بن گیا۔
مسلم لیگ ن کے رکن اسمبلی محسن شاہنواز رانجھا کی طرف سے جمع کروائے گئے اور سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے بھیجے گئے ریفرنس میں اثاثے چھپانے پر عمران خان کی نااہلی کی استدعا کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ عمران خان اور ان کی جماعت نے ان تمام کیسز کو بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے کسی قسم کی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے قانونی ماہرین نے توشہ خانہ کے تحائف کو گوشواروں میں ظاہر نہ کرنے کو عمران خان کے لیے مشکل ترین کیس قرار دیا ہے۔
عمران خان کے مختلف کیسز میں وکیل شاہ خاور کا کہنا تھا کہ تکنیکی بات یہ ہے کہ توشہ خانہ والی بات سنجیدہ ہو سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے ہر رُکن کو ہر سال الیکشن کمیشن میں گوشوارے جمع کروانے ہوتے ہیں اور شاید عمران خان نے اس میں توشہ خانہ تحائف کا ذکر نہیں کیا اور بعد میں اس میں تصحیح کروائی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ کیس سابق سینیٹر فیصل واوڈا کے کیس جیسا ہے جس میں انہیں حلف نامے میں غلط حقائق لکھنے پر نااہل کر دیا گیا تھا۔
تاہم شاہ خاور کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا ذکر سپریم کورٹ کے فیصلے کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔
’آئین میں اس طرح نہیں لکھا بلکہ اس شق میں لکھا ہے کہ ایم این اے ہونے کے لیے جو اہلیت ہے اس میں صادق اور امین ہونا بھی ضروری ہے۔ تاہم اس میں نااہلی کا ذکر نہیں ہے بلکہ نااہلی کا ذکر آرٹیکل 63 میں ہے جہاں صادق اور امین ہونے کا ذکر نہیں۔‘
اس سے قبل سپریم کورٹ 2017 میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو اپنے کاغذات نامزدگی میں اپنے بیٹے کی کمپنی ایف زیڈ ای سے قابل ادائیگی رقم ظاہر نہ کرنے پر نااہل کر چکی ہے۔ عدالت کے فیصلے کے مطابق نواز شریف 2013 میں دائر کیے گئے کاغذات نامزدگی میں ایف زیڈ ای نامی کمپنی میں اپنے اثاثے ظاہر نہ کر کے صادق اور امین نہیں رہے۔
عدالتی حکم پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نواز شریف کی قومی اسمبلی رکنیت ختم کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔
تاہم شاہ خاور کا کہنا تھا کہ نااہلی کے لیے ضروری ہے کہ کوئی عدالت یہ قرار دے کہ فلاں رکن اسمبلی صادق اور امین نہیں رہا۔
ان کے مطابق ’الیکشن کمیشن عدالت نہیں ہے۔‘
دوسری طرف سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ توشہ خانہ کے تحفے گوشواروں میں ظاہر نہ کرنے کے بعد عمران خان سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویزاشرف کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھجوائے گئے ریفرنس میں نااہلی کا سامنا کر سکتے ہیں۔
ان کے مطابق ’عمران خان کے خلاف جو تین کیسز الیکشن کمیشن میں ہیں، ان میں سب سے زیادہ سخت توشہ خانہ والا معاملہ ہے کیونکہ قانون کے مطابق ایم این ایز اپنے تمام اثاثے ہر سال الیکشن کمیشن میں ظاہر کرنے کے پابند ہیں اور عمران خان سے بظاہر قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔‘
پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ عمران خان کے خلاف کیسز کی رینکنگ کی جائے تو توشہ خانہ تحائف کا گوشواروں میں ذکر نہ کرنا سرفہرست ہو گا۔
’سابق وزیراعظم نواز شریف کا کیس بھی بالکل ایسا ہی تھا جس کی وجہ سے انہیں نااہل قرار دیا گیا تھا۔‘
پلڈاٹ کے سربراہ کے مطابق عمران خان کی قانونی مشکلات خاصی سنجیدہ ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کیا حکمت عملی بناتے ہیں۔
عمران خان کا الیکشن کمیشن میں موقف
دوسری طرف عمران خان کے وکلا کے مطابق انہوں نے توشہ خانہ تحائف سے حاصل ہونے والی رقم اپنے بینک اکاؤنٹس میں ظاہر کر رکھی ہے۔
الیکشن کمیشن میں توشہ خانہ ریفرنس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’الیکشن کمیشن عدالت نہیں بلکہ کمیشن ہے، جب تک ہائی کورٹ کی نگرانی نہ ہو تو کوئی ادارہ عدالت نہیں بن جاتا۔‘
’الیکشن کمیشن خود کو عدالت قرار نہیں دے سکتا۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ 10 سال پرانی چیز اٹھا کر سوال کر دیا جائے، یہ ایک سیاسی کیس ہے۔ اپوزیشن اس پر پریس کانفرنسز بھی کر رہی ہے۔‘
جواب میں بیرسٹر خالد اسحاق نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’سپیکر کے ریفرنس میں صرف ایک سوال کیا گیا جبکہ عمران خان کا ریفرنس میں جمع کرایا گیا جواب سوال کے مطابق نہیں۔‘
وکیل کا کہنا تھا کہ ’عمران خان نے توشہ خانہ سے وصول تحائف اثاثوں میں ظاہر نہیں کیے۔ عمران خان نے تسلیم کیا کہ انہوں نے توشہ خانہ کے تحائف اپنے پاس رکھے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سوال یہ ہے کہ عمران خان نے درست وقت میں ان تحائف کو ظاہر نہیں کیا۔ کف لنکس اور گھڑیوں کی قیمت کروڑوں روپے میں ہے۔‘
واضح رہے کہ عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں سات ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنے تحریری جواب میں کہا تھا کہ ’یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیراعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔‘
’یہ تحائف زیادہ تر گُلدان، میز پوش، آرائشی سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز جیسی اشیا پر مشتمل تھے جبکہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنکز، انگوٹھی، بریسلیٹ / لاکٹس بھی شامل تھے۔‘