تاہم مبصرین کے مطابق اس جدوجہد میں عمران خان پہلے سے زیادہ متحرک ہو گئے ہیں اور ان کی مقبولیت بھی پہلے سے کئی گنا بڑھ گئی ہے۔
دوسری طرف حکومت جو پہلے دن سے ہی شدید معاشی اور انتظامی مسائل میں گھری ہوئی تھی، کی تمام تر توجہ عمران خان کی اس مقبولیت کے خاتمے پر مرکوز رہی ہے لیکن اپنے اس مقصد میں وہ کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔
سیاسی پنڈت سمجھتے ہیں کہ اب تک پی ڈی ایم اور اس کے اتحادیوں نے عمران خان کو نیچا دکھانے کے لیے جتنی بھی چالیں چلی ہیں، وہ ان پر الٹی پڑی ہیں اور اس سے عمران خان کو فائدہ ہوا ہے۔
سوشل میڈیا کا استعمال
اسلام آباد کی قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ پولیٹیکل سائنس اور انٹرنیشنل ریلیشنز کے استاد ڈاکٹر فرحان صدیقی کا کہنا ہے کہ عمران خان نے عوام میں اپنی سپورٹ کو اس انداز سے استعمال کیا ہے کہ حکومت باوجود کوشش کے ان کو نقصان نہیں پہنچا سکی۔
’حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کی قیادت کا خیال ہوتا ہے کہ وہ کسی پارٹی کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتے ہیں۔ لیکن ان کی تمام کوششوں کے باوجود عمران خان کا سپورٹ بیس ایسا نہیں ہونے دے گا۔ حکومت کے خاتمے کے بعد عمران خان اور پی ٹی آئی نے مظلومیت کا جو کارڈ استعمال کیا ہے اس سے ان کو نئی طاقت ملی ہے۔‘
ڈاکٹر فرحان صدیقی سمجھتے ہیں کہ عمران خان نے اپنے سپورٹرز اور ورکرز کو متحرک رکھنے کے لیے بہترین حکمت عملی اپنائی ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ ان کو جتنا متحرک رکھیں گے اتنا کامیاب ہوں گے۔
’دوسری طرف حکومت کی معاشی کارکردگی انتہائی بری ہے اور وہ اس کو چھپانے کے لیے عمران خان کے خلاف کارروائیاں اور مقدمے بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
’ابھی انہوں نے خراب قسم کے پولیس آپریشنز اور عمران خان کی پیشی پر آنسو گیس کے استعمال کے اقدام کیے ہیں۔‘
فرحان صدیقی کے مطابق پاکستان مسلم لیگ نواز کو انتخابات میں بہتر کارکردگی دکھانے کے لیے سخت محنت کرنا پڑے گی کیونکہ جس طریقے سے عمران خان سوشل میڈیا کا استعمال کر رہے ہیں وہ انہیں مزید مقبول بنا رہا ہے۔
عمران، اردوغان اور مودی میں مماثلت
فرحان صدیقی کا کہنا ہے کہ ’وہ عام لوگوں اور مڈل کلاس کے ساتھ جڑ رہے ہیں۔ وہ ایسے تمام نعرے اور اصلاحات استعمال کر رہے جو لوگوں کو پسند آتے ہیں۔ جیسے کہ ان کے ہم عصر بین الااقوامی رہنما مودی اور اردوغان وغیرہ کر رہے ہیں۔ ان تمام رہنماؤں کی جماعتیں بیک وقت جدیدیت، مذہب، نیشنلزم، بدعنوانی اور اپنے مخالفین کی موروثی سیاست کی بات کرتی ہیں۔ جیسے نریندر مودی بھی گاندھی خاندان اور کانگرس کی بدعنوانیوں پر بات کرتے ہیں۔‘
حکومتی اتحاد کے پاس راستے محدود
سیاسی تجزیہ کار پروفیسر رسول بخش رئیس اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ عمران خان کی سیاسی حکمت عملی نے مخالفین کے لیے کامیابی کے راستے محدود کر دیے ہیں۔
’پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کو یا تو انتخابات کی تاریخ دینا پڑے گی یا پھر مارشل لا کا انتظار کرنا پڑے گا۔ ان کے پاس کوئی تیسرا راستہ نظر نہیں آتا۔‘
رسول بخش رئیس کا کہنا ہے کہ اس وقت لوگ عمران خان کے ساتھ ہیں، ان کے خلاف 13 سیاسی جماعتیں اور ان کے حمایتی کچھ نہیں کر سکے۔
’اس لیے اب وہ ایسے حالات پیدا کرنا چاہ رہے ہیں جس سے مارشل لا یا ایمرجنسی لگ جائے اور وہ سیاسی شہید بن جائیں۔‘
اس سوال پر کہ انہیں عمران خان کی حکمت عملی اتنی کامیاب کیوں لگتی ہے کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’عمران خان کی شخصیت اور لوگوں کے اعتماد کے علاوہ اس بات کی تشہیر کہ جنرل باجوہ نے ان کو کھل کر کام نہیں کرنے دیا، نے ان کی حمایت میں اضافہ کیا۔‘
طاقتور حلقے عمران خان سے معاملہ نہیں کریں گے
تاہم سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار سلمان غنی اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ عمران خان کی مقبولیت ان کو فیصلہ کن کامیابی کی طرف لے کر جا رہی ہے۔
’اس وقت تحریک انصاف کے رہنماؤں کا خوف ان کے چہروں سے عیاں ہے۔ عمران خان جن طاقتوں سے معاملات طے کرنا چاہتے ہیں وہ ان سے معاملات نہیں کرنا چاہتے۔‘
11 اپریل 2022 کے بعد اسٹیبلشمنٹ کو نشانہ بنانے کی جو حکمت عملی تحریک انصاف نے اپنائی ہے وہ ہر سیاسی قوت کرتی ہے اور پھر صلح کر لیتی ہے۔
’اس وقت عدلیہ پر دباؤ ہے اور لوگوں کا مہنگائی کے خلاف ردعمل ہے‘
سلمان غنی کا کہنا تھا کہ اتنا ضرور ہے کہ اس وقت جو محاذ آرائی، تناؤ اور ٹکراؤ ہے، وہ پہلے کبھی اس سطح پر نہیں آیا۔
’یہ جو انہوں نے اب لٹھ بردار ہونے کی پالیسی اپنائی ہے یہ تحریکِ انصاف کا تشخص نہیں تھا۔ یہ رویہ پہلے مذہبی جماعتیں اختیار کرتی تھیں اور عمران خان کی حکومت اس کو کچلنے کے لیے اداروں کے ساتھ مل کر کام کر چکی ہے۔‘
’سیاسی جماعتوں کو انتخابات کے انعقاد کے لیے ایک تاریخ پر متفق ہونا چاہیے لیکن یہ پاکستان کی سیاسی قوتوں کی بدقسمتی ہے کہ ان کا کسی پہلو پر اتفاق نہیں ہو سکتا۔‘