Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کی سیاسی پولرائزیشن کو مرہم کی ضرورت ہے: ڈاکٹر علی عواض العسیری

پاکستان کا تصور اس کے بانی محمد علی جناح نے ایک جمہوری اور ترقی پسند قوم کے طور پر پیش کیا تھا، لیکن اس کی پیچیدہ تاریخ نے اس کے بنیادی خیال سے اس کو دور کر دیا ہے۔ عالمی جغرافیائی سیاسی فیصلوں اور انڈیا کے ساتھ تعلقات سے قطع نظر، اس کا اندرونی تنازع یہاں کی سیاسی زندگی کا اہم عنصر رہا ہے۔ آج یہ تنازع اس قوم کو پارہ پارہ کر رہا ہے۔
میں نے حال ہی میں اسلام آباد میں ایک ہفتے کا وقت گزارا، جہاں میں نے ایک تھنک ٹینک میں مشرق وسطیٰ میں پروان چڑھنے والے رجحانات پر گفتگو کی، جبکہ ایک اور جگہ سعودی عرب اور پاکستان کے  پائیدار تعلقات پر بات چیت کی۔ اس دورے کے دوران مجھے قابل ساتھیوں اور دیرینہ دوستوں کے ساتھ پاکستان کی حالیہ صورتحال پر گہری گفتگو کا موقع ملا۔  
ملک میں جاری مسلسل معاشی بحران کے پھیلاؤ کے باوجود، مجھے سیاسی تقسیم کی سطح کے بارے میں جان کر خاص طور پر مایوسی ہوئی۔ یہ دوطرفہ چیلنجز یقینی طور پر جڑئے ہوئے ہیں۔  لیکن میں جانتا ہوں کہ پاکستان کچھ عرصہ قبل تک جمہوری منتقلی کے مستحکم راستے پر تھا۔ یہ عالمی طور پر بھی دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں شمار ہوتا تھا۔ پھر، کیا غلط ہوا؟
میں نے سعودی سفیر کے طور پر پاکستان میں09- 2001 کے دوران خدمات سرانجام دیں، جب یہ افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اگلے محاذ پر تھا۔
اپنی قیادت کے ہدایت اور رہنمائی میں، میں نے اس وقت کی پاکستانی قیادت سے تمام مشترکہ دلچسپی کے امور پر بات چیت کی۔ مملکت کی سب سے پہلی ترجیح پاکستان میں امن اور استحکام کو یقینی بنانا تھا۔ یہ خیال ذہن میں رکھتے ہوئے، ہم نے سکیورٹی اور معاشی تعاون کو مزید بڑھایا اور اپنے ناراض بھائیوں کے ساتھ بھی اختلافات پر مصالحت کی کوشش کی۔
اسلام کے قلعے کے طور پر اپنی منفرد  حیثیت  کے حامل سعودی عرب نے مسلم ممالک میں اور مسلم قوم کی یکجہتی کی کوشش کی ہے۔  ہمارے پاکستان کے ساتھ تعلقات عوامی سطح پر ہیں، چنانچہ حکومت یا قیادت کو درپیش چیلنجز اس پر اثرانداز نہیں ہوتے۔
گذشتہ کئی برسوں سے ہماری عسکری قوتوں کے درمیان تعلق میں مضبوطی پیدا ہوئی ہے۔ مملکت نے تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم رکھے ہیں تاکہ پاکستان سیاسی طور پر مستحکم رہے اور معاشی طور پر ترقی کرے۔

2005 کے تباہ کن زلزلے اور پچھلے سال سیلاب کی بے مثال تباہی کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستانی قوم نے ہمیشہ مشکلات کو عبور کیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

کوئی بھی ملک اس وقت تک معاشی طور پر ترقی نہیں کر سکتا جب تک اس کا سیاسی نظام مستحکم نہ ہو۔ سیاسی استحکام معاشی پالیسی کے تسلسل کو یقینی بناتا ہے۔ اس کے نتیجے میں، سرمایہ کاروں کے اعتماد اور تمام اقتصادی شعبوں کی  قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، مستقل سیاسی عدم استحکام اقتصادی ترقی کے امکانات کو کمزور کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں عوام اگر معاشی طور پر متاثر ہوں تو جمہوریت کے نام پر کوئی بھی سیاست بے معنی ہو جاتی ہے۔
فی الوقت، پاکستان میں ایک ساتھ دو مسائل ہیں: ایک طرف حالیہ بڑھتے پاپولزم نے سیاست اور معاشرے کو منقسم کر دیا ہے۔ دوسری طرف غیر ملکی بیل آؤٹ کی طرف دیکھتی معیشت کو ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی ضرورت ہے، جنہیں سیاسی پولیرائزیشن کے تناظر میں ایسی اصلاحات کرنا مشکل ہے۔
سیاسی کشمکش اور معاشی بحران ایک دوسرے کو تقویت دے رہے ہیں جن کا نتیجہ تباہ کن ہی نکل سکتا ہے۔ اس صورت حال سے بچنے کے لیے تمام سیاسی کھلاڑیوں اور ریاستی اداروں کی طرف سے مفاہمت اور تحمل کے جذبے کی تجدید کی ضرورت ہے۔
مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی قوم اپنی موجودہ مشکلات سے کامیابی کے ساتھ نکلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ایسا پہلے بھی کئی بار ایسا ہو چکا ہے – 1971 کے مشرقی پاکستان کے ٹوٹنے کے بعد، افغانستان میں پے در پے جنگوں کے دوران، اور قدرتی آفات جیسے 2005 کے تباہ کن زلزلے اور پچھلے سال سیلاب کی بے مثال تباہی کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستانی قوم نے ہمیشہ مشکلات کو عبور کیا۔
پاکستان کے ایک دوست کے طور پر، وہاں کی سفارتی خدمات کی بہت سی یادوں کے ساتھ اور ایک آزاد سکالر کے طور پر اپنی موجودہ حیثیت میں، پاکستان کے رہنماؤں کے لیے دو قابل عمل اقدامات تجویز کرتا ہوں۔
سب سے پہلے معیشت، قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی سے متعلق قومی ایجنڈے کے بنیادی مسائل پر کم از کم اتفاق رائے پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ اتفاق رائے اہم سٹیک ہولڈرز کے مشاورت اور ان کے درمیان اختلاف رائے کو دیکھتے ہوئے حاصل کرنا چاہیے۔
 معاشی مسئلے پر پاکستان آئی ایم ایف سے معاہدے کو بحال کیے بغیر کچھ نہیں کر سکتا۔ یقیناً اس کے لیے کچھ شرائط کو پورا کرنے کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف کچھ دینے اور لینے کے بعد راضی ہو سکتا ہے، اور حکومت اس عمل میں کچھ سیاسی سرمایہ کھو سکتی ہے۔ لیکن معیشت کو موجودہ بحران سے نکالنا ایک ضروری انتخاب ہے۔ سعودی عرب جیسے بااعتماد دوستوں سے اس کے بعد تعاون حاصل رہے گا۔ تاہم طویل مدت میں سرمایہ کاری اور پیداواری صلاحیت بڑھانے کو حکومت کے ترقیاتی ایجنڈے میں سرفہرست رہنا چاہیے۔
قومی سلامتی کے معاملے کو دیکھا جائے تو سنہ 2014 کی ایک نادر مثال سامنے ہے جب تمام سیاسی جماعتیں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان پر اکٹھے ہوئیں۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف ایک مثالی مہم شروع کی۔ یہ عفریت ایک بار پھر افغان سرحد کے اس پار سے سر اٹھا رہا ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ تمام متعلقہ رہنما اس لعنت سے نمٹنے کے لیے دوبارہ ایک پیج پر نہ ہوں۔

عواد العسیری کا کہنا ہے کہ معاشی مسئلے پر پاکستان آئی ایم ایف سے معاہدے کو بحال کیے بغیر کچھ نہیں کر سکتا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

جہاں تک خارجہ پالیسی کا تعلق ہے، اس کو بنیادی طور پر ملک کے اندر طاقت کے حصول کے کھیل سے ایک طرف رکھا جانا چاہیے ۔ دیگر کے علاوہ ان میں امریکہ کے ساتھ تعلقات بھی شامل ہیں، جس سے پاکستان نے وقتاً فوقتاً سٹریٹجک شراکت داری قائم رکھی ہے۔ اسی طرح چین کے ساتھ، جس کا بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کا فلیگ شپ پروگرام، چین پاکستان اقتصادی راہداری، جو رواں سال ایک دہائی مکمل کر رہا ہے۔ اور مملکت اور دیگر خلیجی ممالک جن کے ساتھ پاکستان ایک بھرپور تاریخ اور برادرانہ رشتوں کے ذریعے جڑا ہوا ہے۔
تجویز کردہ دوسرا اقدام یہ ہے کہ ملک کے اندر کھیل کے بنیادی اصولوں پر تمام سیاسی سٹیک ہولڈرز کو متفق ہونا چاہیے اور ان کی پابندی کرنی چاہیے۔ یہ اچھی بات ہے کہ عسکری قیادت نے بالآخر سیاست سے دور رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اب سیاست دانوں پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سمجھداری سے کام کریں، ایک دوسرے کا احترام کریں اور عوامی بھلائی کے لیے کام کریں۔ اسی طرح حکومت کے ایگزیکٹو، مقننہ اور عدالتی اداروں کو ایک موثر چیک اینڈ بیلنس سسٹم کے ذریعے اپنے آئینی دائرہ کار میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔
سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر سیاسی مسابقت کو منظم کرنے اور سیاسی تنازعات کو قومی مفاہمت کی حقیقی روح میں سمجھوتے کے ذریعے حل کرنے کے لیے ایک ضابطہ اخلاق تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان نہ صرف نسلی اعتبار سے متنوع ہے بلکہ اس ملک میں علاقائی تفاوت بھی ہے۔ یہ تنوع اتحاد کا ذریعہ ہونا چاہیے۔ تفاوت کو وسائل کی منصفانہ تقسیم اور اختیارات کی منتقلی کے ذریعے ہی دور کیا جا سکتا ہے۔
ہمیں یہ سمجھنے کی ضروت ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں میں لوگوں کے اصل مسائل روزی روٹی اور اسی طرح کی دیگر چیزوں کے گرد گھومتے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنما ایک دوسرے کو سیاسی مخاصمت کا نشانہ بنانے کے بجائے اس مسئلے پر مسابقت کا رویہ اپنائیں اور ان کے حل کے لیے تعاون کریں۔ ملکی مفاد کی خاطر انہیں ایک دوسرے کو معاف کرنے اور بھولنے کا حوصلہ رکھنا چاہیے اور ملک کو آگے بڑھانا چاہیے۔
پاکستان کے آج سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہونے کی درست وجوہات ہیں، جبکہ انڈیا اور بنگلہ دیش جیسی دیگر جنوبی ایشیائی ریاستیں عالمی سطح پر اپنا سیاسی اور معاشی مقام بنا رہی ہیں۔ پاکستان کو بہتری کی اشد ضرورت ہے۔ یہ سعودی عرب پر اعتماد کر سکتا ہے جو پاکستان کے مستقبل میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے۔ لیکن معاشی بحالی اور سیاسی استحکام کے لیے اندر سے ہی بنیادی قوت آنی چاہیے۔ یہ جتنا جلدی ہو اتنا ہی بہتر ہے۔

ڈاکٹر علی عواض العسیری نے سعودی عرب کے سفیر کے طور پر پاکستان (2001-09) اور لبنان (2009-16) میں خدمات سر انجام دیں ہیں۔ وہ  ریاض میں واقع انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ایرانین سٹیڈیز ’رصانہ‘ کے بورڈ ممبر ہیں۔ انہوں نے بیروت عرب یونیورسٹی سے معاشیات میں پی ایچ ڈی حاصل کی تھی اور کتاب ’کومبیٹنگ ٹیررازم: سعودی عربز رول ان دی وار آف ٹیرر‘ (آکسفرڈ یونیورسٹی پریس 2009) کےمصنف ہیں۔

 

شیئر: