پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر گوجرانوالہ کی پولیس نے 10 کروڑ روپے کی ڈکیتی کرنے والے ملزمان کو گرفتار کیا ہے۔
پولیس کے مطابق اس سال کی اب تک کی یہ سب سے بڑی ڈکیتی تھی۔ قانونی وجوہات کی بنیاد پر پولیس نے چار رکنی گینگ کے اراکین کے نام ابھی تک ظاہر نہیں کیے ہیں۔ تاہم ہم سہولت کے لیے یہاں ان کے لیے فرضی نام استعمال کریں گے۔
شیخوپوہ شہر کے گنجان علاقے میں ایک گھر کرائے پر لیا گیا۔ کرائے پر گھر لینے والے شخص آفتاب (فرضی نام) کا تعلق بھی اسی شہر ہے۔ آسانی سے گھر کرائے پر ملنے کے بعد اس نے اپنے تین اورساتھیوں اکرام، واجد اور صغیر کے ساتھ یہاں رہائش اختیار کر لی۔
مزید پڑھیں
-
کراچی میں پولیس اہلکار کا قتل، معاملہ کیا ہے؟Node ID: 719836
-
لاہور میں کروڑوں روپے کی چوری، لُوٹنے والا کوئی اور نہیں بلکہ۔۔۔Node ID: 720031
گھر کے اندر خصوصی طور پر ایک ٹی وی رکھا گیا جس پر نیٹ فلکس کی ڈرامہ سیریز نارکوس کو یہ تمام افراد بہت شوق سے دیکھتے تھے۔
بعض مقامات پر تو ڈرامہ روک کر اس کے مناظر پر بحث بھی ہوتی تھی۔ یہ چاروں افراد کسی بڑے منصوبے کی تیار کر رہے تھے لیکن کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا۔ اسی گھر میں انہوں نے اسلحہ کا بندوبست کیا اور منصوبہ بندی کی۔
ڈکیتی کی رات:
شیخوپورہ سے گوجرانولہ روڈ پر 13 فروری کی رات نو بجے ایک فراٹے بھرتی کار ایک ویگن کا پیچھا کر رہی تھی۔ جیسے ہی ویگن گوجرانوالہ کی حدود میں داخل ہوئی۔ تو کار سوار چار افراد نے مزید چند کلومیٹر تک اس کا پیچھا کیا اور پھر اپنی کار واپس شیخوپورہ کی طرف موڑ لی۔
اس کار میں یہ وہی چار افراد تھے جو پچھلے ایک مہینے سے اس واردات کی تیاری میں مشغول تھے۔ 14 فروری کی رات اس وقت انہوں نے اسی ویگن کا تعاقب شروع کیا۔ اور جب یہ ویگن گوجرانوالہ کی حدود میں داخل ہوئی تو چار کلومیٹر مزید پیچھا کرنے کے بعد یہ کار اس ویگن کے برابر آئی اور دو افراد نے اس کے ٹائروں پر فائرنگ شروع کردی۔
آدھے منٹ سے بھی کم وقت میں ویگن کے چاروں ٹائر پھٹ چکے تھے اور ویگن کے ڈرائیور نے اسے روک لیا۔ چند لمحے سناٹا رہا اس کے بعد چاروں افراد اپنی کار سے نکلے اور ویگن کو گھیرے میں لے لیا۔

یہ ویگن ایک سکیورٹی کمپنی کی تھی اور شیخوپورہ سے گوجرانوالہ کئی بینکوں کا کیش لے کر جا رہی تھی۔ اس وقت اس بلٹ پروف گاڑی میں 10 کروڑ روپے کا کیش موجود تھا۔ اور اندر دو سکیورٹی گارڈز کے علاوہ ایک ڈرائیور تھا۔ مسلح افراد نے ایسے تاثر دیا کہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ڈرائیور اور سکیورٹی گارڈز نے کیش ویگن کا دروازہ کھول دیا اور نیچے آ گئے۔
جس کے بعد چاروں افراد نے کیش سے بھرے تھیلے اٹھائے اور اپنی کار کی ڈگی میں رکھے اور واپس شیخوپورہ کی راہ لی۔ پانچ منٹ کے بعد ایک سکیورٹی گارڈ نے بالاخر پولیس کے ایمرجنسی نمبر 15 پر کال کی۔
ناقابل یقین صورت حال:
رات کے دس بجے گوجرانوالہ شیخوپورہ روڑ کے درمیان 10 کروڑ روپے کی ڈکیتی ہو چکی تھی۔ اتنی بڑی رقم کا سن کر اعلی پولیس افسران بھی جائے واردات پر پہنچ چکے تھے۔ سی پی او گوجرانوالہ ایاز سلیم بھی وقوعہ پر موجود تھے۔ دونوں شہروں کی پولیس الرٹ تھی ناکے بندیاں کی جا چکی تھیں۔ لیکن ڈکیت رقم لے کر غائب ہو چکے تھے۔ سکیورٹی کمپنی کے ایم ڈی شیخ شعیب کی مدعیت میں جائے وقوعہ کے متعلقہ تھانہ تتلے عالی میں اسی وقت درج کر لیا گیا۔
کئی ایسے سوال تھے جو حل طلب تھے کہ ایک بلٹ پروف گاڑی جو کہ ہر طرح سے محفوظ تھی اس کے دروازے کیوں کھولے گئے؟ اتنا زیادہ کیش اس سنسان علاقے سے رات کے اس وقت لے کر جانے کی کیا ضرورت تھی وغیرہ وغیرہ ۔ پولیس کے مطابق یہ سب کچھ ناقابل یقین تھا۔ اور اس کار کا بھی دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں تھا۔
پولیس نے ملزم کیسے پکڑے؟
انچارج سی آئی اے عنصر جاوید کے ساتھ چار دیگر افسران اور اہلکاوں کو اس کیس کی تفتیشن سونپ دی گئی تھی۔ عنصر جاوید نے اردو نیوز کو تفتیش سے متعلق بتایا کہ ’ابتدا میں کوئی سِرا ہاتھ نہیں آ رہا تھا کیشن وین کے ڈرائیور اور گارڈز کی تسلی ہو چکی تھی کہ انہوں نے گھبرا کے دروازے کھولے۔ انہیں شک تھا کہ کہیں ڈاکوؤں کے پاس بھاری اسلحہ نہ ہو۔ یہ علاقہ بھی ایسا تھا کہ دور دور تک کسی کیمرے کا بھی کوئی چانس نہیں تھا پھر ہم نے جیو فینسنگ کا سہارا لیا۔ سکیورٹی گارڈز اور ڈرائیور کے نمبر چل رہے تھے اس وقت اور کون سا نمبر اس جگہ سے ٹاور سے کنیکٹ تھا۔ یہیں سے شروعات ہوئی۔‘
