Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کیسے بھول سکتی ہوں‘، انڈیا کے خاندان کو ڈی آئی خان کے قدیم سکول کی تلاش

تاریخی سکول کو تربیتی مرکز میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ فوٹو: اردو نیوز
گزشتہ دنوں مجھے ڈیرہ اسماعیل خان جانے کا اتفاق ہوا جہاں کچھ مقامی نوجوانوں اور بچوں کو تھیٹر کی تربیت دے کر ایک چھوٹا سا ڈرامہ تیارکروانا تھا۔ فارغ وقت بھی بہت تھا لیکن شہر میں کرنے کو کچھ خاص مل نہیں رہا تھا۔ انٹرنیٹ بھی کھنگال ڈالا لیکن شہر کی تاریخ یا اہم مقامات کے حوالے سے کوئی قابلِ ذکر معلومات نہیں ملیں اور نہ ہی  شہریوں کو کچھ زیادہ پتا تھا۔
تاہم گوروں کی لکھی چند کتابوں سے اتنا ضرور پتا چلتا ہے کہ ڈیرہ شہر پندرہویں صدی کے اواخر میں اسماعیل خان نے آباد کیا جو بلوچ سردار ملک سہراب خان کا بیٹا تھا۔ انہیں ملتان کی لنگاہ سلطنت کے شاہ حسین نے یہ علاقہ جاگیر کے طور پر عطا کیا تھا۔ شروع میں یہاں پر مکران کے لوگ آ کر آباد ہوئے۔
قدیم شہر 1823ء میں دریائے سندھ میں آنے والے سیلاب کی نذر ہو گیا تھا۔ سدوزئی سردار شیر محمد خان نے سیلاب کے دو سال بعد نیا شہر اصل شہر سے چھ کلو میٹر مغرب میں آباد کیا۔
ڈی آئی خان میں ہندو برادری
یہ شہر چار بازاروں پر مشتمل ہے۔ یہ چاروں بازار چوگلہ کے مقام پر ملتے ہیں۔ ایک دو تاریخی مقامات کا ذکر ملتا ہے مگر وہ شہر سے کئی کلو میٹر دور واقع ہیں۔ ان میں رحمان ڈھیری اور کافر کوٹ قابلِ ذکر ہیں۔  
ڈیرے میں بورنگ وقت گزارتے ہوئے ایک دن یوں ہلچل مچی کہ تھیٹر گروپ کے رکن نے وہاں موجود ایک مندر کا ذکر کیا۔ ریہرسل کے بعد ہم ٹیم کے ایک اور رکن ملک کاشف کے ہمراہ مندر دیکھنے نکل گئے۔
اگرچہ پہلے پہل مندر کے منتظم نے اندر داخل ہونے سے روکا مگر تھوڑی سی بات چیت کے بعد ہمیں اجازت مل گئی۔ منتظم سے پتا چلا کہ ہندوؤں کی موجودہ آبادی لگ بھگ ڈیڑھ سو افراد پر مشتمل ہے۔ تاہم تقسیم سے پہلے 1901 میں ہندو شہر کی آبادی کا 35 فیصد تھے اور سکھوں کی آبادی لگ بھگ 4 فیصد تھی۔ 
 ہوا یوں کہ مندر اور ہندو آبادی کے حوالے سے پوسٹ لگائی تومیرے صحافی دوست شیراز حسن کا پیغام آیا کہ کیا ابھی ڈیر ے میں ہی ہو۔ میں نے بتایا کہ ہاں وہی ہوں تو فوری طور پر ٹوئٹر کے ذریعے ایک انڈین خاتون ریتُو چُگ سے رابطہ کروا دیا جس کے والدین تقسیم کے وقت ڈیرہ اسماعیل خان سے ہجرت کر گئے تھے۔

سکول کی تعمیر 1887 میں ملکہ وکٹوریہ کے دور حکومت میں شروع ہوئی تھی۔ فوٹو: اردونیوز

ریتو کے نانا کا سکول
ریتُو چُگ کی والدہ تقریباً چھیانوے برس کی ہیں اور ہجرت کے وقت ان کی عمر بیس سال تھی۔ لیکن اب آخری عمر میں وہ اپنے آبائی شہر ڈیرے کو بہت یاد کرتی ہیں۔
ریتو کی والدہ نے بتایا کہ ان کے والد لالہ شِو دیال ڈیرے میں ہندوؤں کے لیے قائم کیے گئے ایک فلاحی سکول ’وکٹوریہ بھراتری ہائی سکول ڈیرہ اسماعیل خان‘ کے ہیڈ ماسٹر تھے۔
ریتُو کی خواہش تھی کہ اس سکول کو تلاش کیا جائے اور اگر اس کی تازہ تصویریں یا ویڈیوز مل جائیں تو وہ اپنی والدہ کو دکھا سکیں۔ ریتو نے مجھے سکول کا ایک خاکہ بھی بھیجا اور اس کے ساتھ ہی اردو زبان میں سکول پر لکھا ہوا ایک مضمون اور دو تصویریں بھیجیں۔
پہلے پہل تو مجھے لگا کہ یہ کوئی ایسا مشکل کام نہیں ہوگا مگر مسئلہ وقت کی کمی کا تھا۔ میں نے اپنے مقامی دوست ملک کاشف کی مدد ملی لیکن انہیں بھی اس نام کے کسی سکول کا علم نہیں تھا۔
وکٹوریہ بھراتری ہائی سکول کی تلاش
کاشف کو یہ ضرور معلوم تھا کہ شہر میں انگریزوں کے زمانے کی کوئی قدیم عمارت موجود ہے۔ ہم وہاں پہنچے تو اس کا گیٹ کھلا ہوا تھا لیکن ریتُو کی بھیجی ہوئی تصویروں سے دور دور تک کوئی مماثلت نہیں تھی۔ خیر تھوڑی دیر میں یہ بات کھل گئی کہ یہ ریتو کے نانا کا سکول نہیں بلکہ اسلامیہ سکول تھا جو 1930میں مسلمانوں نے مُٹھی آٹا سکیم کے تحت بنوایا تھا۔  
سکول کے ایک استاد سے ملاقات ہوئی جو ڈی آئی خان کے تقریباً تمام سکولوں میں پڑھا چکے تھے لیکن انہیں بھی وکٹوریہ بھراتری سکول کا علم نہیں تھا۔ یہ ہمارے لیے بہت مایوس کن صورتحال تھی کہ تدریس کے شعبے سے منسلک شخص نے بھی اس تاریخی سکول کا نام نہیں سنا ہوا تھا۔ 

سکول ہندوؤں کی تنظیم بھراتری سبھا کے زیر انتظام قائم کیا گیا تھا۔ فوٹو: اردونیوز

خیر کافی دیر گپ شپ کے بعد جب ہم وہاں سے جانے لگے تو مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ میں انہیں ریتُو کی بھیجی ہوئی تصویریں دکھا دوں۔ استاد صاحب نے فوراً تصویریں پہچان لیں لیکن وہ اس بات پر حیران تھے کہ سکول کا یہ نام تو کبھی نہیں سنا۔ خیر انہوں نے یہ بتایا کہ اس سکول کو ٹیچرز ٹریننگ سنٹر میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
استاد صاحب نے فوری طور پر مذکورہ سکول کے پرنسپل کو فون کیا اور ان سے بھی پوچھا کہ کیا کبھی اس سکول کا نام وکٹوریہ بھراتری رہا ہے جس پر پرنسپل صاحب نے لاعلمی کا اظہار کیا۔
خیر ہمیں یہ خوشی تھی کہ سورج غروب ہونے سے کافی پہلے ہمیں سکول کا پتا مل گیا تھا اور وہ زیادہ دور بھی نہیں تھا۔ وہاں پہنچے تو ہم نے فوراً تصویریں اور ویڈیوز بنانا شروع کر دیں اور ساتھ ہی چوکیدار سے کچھ معلومات بھی حاصل کیں۔
’میرے پِتا پارٹیشن کے ٹائم ہیڈ ماسٹر تھے‘
میں نے وہ تصویریں اور ویڈیوز رات کو ہی واٹس ایپ کے ذریعے ریتُو کو بھیج دیں جو انہوں نے اپنی والدہ کو دکھائیں جس پر والدہ نے انتہائی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے دعاؤں بھرا وائس نوٹ مجھے بھیجا۔ 
ریتو کی والدہ نے کہا ’آپ نے فوٹو بھیجے ہیں۔ ان کو دیکھ کے میرے کو بہت اچھا لگا۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔ خدا آپ کی بڑی عمر کرے۔ سکھی رہو، خوش رہو۔ میرا اشیر باد ہے۔ ریتُو چُگ کی ممی بول رہی ہوں، ماتا بول رہی ہوں۔ میرے پِتا وی بی (وکٹوریہ بھراتری) سکول میں ہیڈ ماسٹر تھے پارٹیشن کے ٹائم۔ میں کیسے بھول سکتی ہوں۔ ساتھ میرے یہ یادیں ہیں۔ آپ نے ساری تازہ کر دیں۔ بہت اچھا لگا۔ شکریہ۔‘ 
انہوں نے دوسرا پیغام ’ڈیرے والی‘ زبان میں بھیجا۔ وہ اس زبان کو ڈیرے والی کہتی تھیں اور قدرے حیران تھیں کہ میں وہاں کی زبان کو سرائیکی کیوں کہہ رہا تھا۔  
’’ڈیرے والی بولی تاں اُتھائیں رہ گئی اے ڈیرے۔ ایتھائیں تہاڈے نال ڈیرے والی اچ گال کریندی پئی ہاں۔ اور تواکوں اشیرواد دینی آں۔ تہاڈا پریوار سارے سُکھ رہو، خوش رہو۔ میں ہمیشہ ایہہ یاد رکھیساں۔‘

سکول کی تاریخی عمارت خستہ حالی کا شکار ہے۔ فوٹو: اردونیوز

ان جذبات کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ بس اگر آپ ایک حساس دل رکھتے ہیں تو ذرا تصور کیجیے کہ ایک بیس سالہ لڑکی کو حالات کا جبر اپنا شہر چھوڑنے پر مجبور کر دیتا ہے اور وہ 75 سال اس شہر کو یاد کرتے گزار دیتی ہیں۔ وہی یادیں لیے وہ بوڑھی ہو جاتی ہیں لیکن دل میں ان گلیوں اور عمارتوں کو دیکھنے کی کسک باقی ہے جہاں بچپن اور جوانی گزری۔
سکول تھا تو وہی جس کی ریتُو کو تلاش تھی مگر ریتُو نے جس سکول کے بارے میں مضمون بھیجا تھا اور جس انداز میں عمارت کی شان و شوکت کا ذکر تھا اس کے صرف اب آثار ہی باقی ہیں۔ اگرچہ عمارت اب بھی زیرِ استعمال ہے مگر اس کی حالت مخدوش ہے۔ لگتا ہے صدیوں سے کسی نے رنگ و روغن یا مرمت کا کام نہیں کیا۔
وکٹوریہ بھراتری سکول کی تاریخ 
مضمون میں دی گئی معلومات کے مطابق سکول کی تعمیر 1887 میں شروع ہوئی تھی۔ یہ وہی سال تھا جب برطانیہ کی ملکہ وکٹوریہ کے اقتدار کو پچاس سال پورے ہو گئے تھے۔ 
اسی لیے اس سکول کا نام وکٹوریہ بھراتری سکول رکھا گیا۔ یہ سکول ہندوؤں کی ایک تنظیم بھراتری سبھا کے زیر انتظام قائم کیا گیا تھا۔ اس تنظیم کا ذکر امپیریل گزٹ آف انڈیا کے 1908 کے ایڈیشن میں ملتا ہے۔
سکول کی یہ عمارت 1920ء میں مکمل ہوئی۔
امپیریل گزٹ کے مطابق اس وقت تک شہر میں دو ہائی سکول ہوا کرتے تھے تھے جن میں سے ایک چرچ مشنری سوسائٹی کے تحت اور دوسرا بھراتری سبھا کے تحت چلتا تھا۔ یقیناً دوسرا سکول یہی تھا جسے ہم ڈھونڈنے نکلے تھے۔
مضمون کے مطابق ہندوؤں کے اس سکول میں مسلمان طلبا بھی تعلیم حاصل کرتے تھے۔

سکول کی عمارت کا خاکہ جو ریتو کی والدہ کے پاس محفوظ ہے۔ فوٹو: اردونیوز

اس وقت کے صوبہ سرحد کے انسپکٹر سکولز نے جب اس عمارت کا دورہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ’سکول کی عمارت مجھے ایسے دکھائی دیتی ہے جیسے مہاتما بدھ کا مندر۔‘ 
یہ عمارت گئوو شالہ کے سامنے بنائی گئی تھی جو اب بھی موجود ہے۔ تقسیم کے بعد گئوو شالہ کی عمارت کسی مسلمان خاندان کو دے دی گئی جو آج بھی اس میں قیام پذیر ہے۔ اس عمارت کی حالت بھی خاصی مخدوش ہے۔  
سکول کا اصل نام بھول جانے کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ سکول کو تربیتی مرکز میں بدلتے ہوئے کسی کو یہ خیال نہیں آیا کہ اس کی تاریخ کو محفوظ کیا جائے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ڈی آئی خان کے شہریوں اور نہ ہی تربیتی مرکز کے پرنسپل کو عمارت کی تاریخ کا علم ہے۔

شیئر: