Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جہانگیر ترین گروپ دوبارہ ایکٹیو کیوں ہوا ہے، کیا گروپ اپنا سیاسی اثر کھو رہا ہے؟

سیاسی مبصرین کے مطابق بدلتے سیاسی حالات میں ترین گروپ کی ملاقات ایک جائزہ ملاقات کہی جا سکتی ہے۔ (فوٹو: فیس بک)
گزشتہ دنوں لاہور میں ایک بار پھر جہانگیر ترین گروپ کی ایک میٹنگ ہوئی جو بظاہر تو ایک افطار ڈنر تھا لیکن اس کو سیاسی پیرائے میں ہی دیکھا جا رہا ہے۔
مارچ کے آخر میں ہونے والی اس گروپ کی میٹنگ کو اینیورسری میٹنگ بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ دوسال قبل مارچ کے مہینے میں ہی جب تحریک انصاف کے دور میں جہانگیر ترین اور ان کے خاندان پر مقدمات بنائے گئے تو پہلی مرتبہ  پی ٹی آئی کے اندر سے 30 ایم پی ایز کا گروپ کھل کر سامنے آیا تھا۔
اسی وقت سے اسے جہانگیر ترین گروپ کے نام سے موسوم کیا جا رہا ہے۔ بعد میں جب حمزہ شہباز وزیر اعلی پنجاب بنے تو یقینا اس گروپ کے اراکین اسمبلی نے کلیدی کردار ادا کیا۔ لیکن صورت حال اس وقت بدلی جب گزشتہ سال جولائی میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں اس گروپ کے امیدوار ن لیگ کی ٹکٹ پر الیکشن لڑے اور اکثریت ہار گئی۔
اس وقت تک لاہور میں وقفے وقفے سے ایسے ہی اس گروپ کی سیاسی میٹنگز جہانگیر ترین کی لاہور میں رہائش گاہ پر ہوتی رہیں۔ قریب آٹھ مہینے بعد اب دوبار اس گروپ کا اکٹھ ہوا ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق بدلتے سیاسی حالات میں ترین گروپ کی ملاقات ایک جائزہ ملاقات کہی جا سکتی ہے۔
سینیئر تجزیہ کار سلمان غنی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’گزشتہ سال ہونے والے ضمنی انتخابات میں ترین گروپ کی شکست سے یہ کہا جا سکتا ہے وہ اثر برقرار نہیں رہا جس کا ان انتخابات سے پہلے ایک تاثر قائم تھا۔ لیکن چونکہ جنوبی پنجاب میں جہانگیر ترین کا اپنا ذاتی اثرو رسوخ بہت زیادہ ہے اس لیے وہ آنے والے سیاسی حالات میں اپنی صف بندی تو ضرور کریں گے۔‘
سلمان غنی یہ سمجھتے ہیں کہ جنوبی پنجاب میں پیپلزپارٹی ن لیگ سے زیادہ کام کر رہی ہے۔ ’اس بات کے بھی امکانات رد نہیں کیے جا سکتے کہ ترین گروپ اور پیپلزپارٹی اتحاد کر لیں۔ کیونکہ پیپلزپارٹی کی نظریں پنجاب میں اس بار دو درجن سے زائد نشستیں نکالنے پر ہے۔‘
سوال کیا گیا کہ دو سال ہو گئے ہیں اس گروپ کو باضابطہ اپنا وجود قائم کیے ہوئے کیا اس گروپ کی  موجودہ میٹنگ بہت زیادہ اہم ہے؟ تو سلمان غنی کا کہنا تھا کہ ’سیاسی جماعتیں یا گروپ بدلتے حالات کے ساتھ اپنی حکمت عملی بدلتے رہتے ہیں اس لیے مجھے لگتا ہے کہ اب ترین گروپ دوبارہ متحرک ہوگا۔ لیکن جتنا میں جانتا ہوں ان کی کوشش ہو گی کہ زیادہ سے زیادہ اپنے بندے ایڈجسٹ کیے جائیں۔‘

جہانگیر ترین گروپ کی میٹنگ میں اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض بھی موجود تھے۔ (فوٹو: فیس بک)

لاہور میں ہونے والی ترین گروپ ک میٹنگ میں اشرف رند بھی موجود تھے جو ابھی تک تحریک انصاف کے امیدوار ہیں۔
انہوں نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ وہ اس میٹنگ میں موجود تھے البتہ جو ویڈیو کلپ جاری کیا اس میں وہ نظر آرہے ہیں۔
صحافی لیاقت انصاری جو گزشتہ دوبرس سے وجود میں آنے والے اس سیاسی گروپ کی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ’ترین گروپ ابھی بھی اپنی بارگیننگ پوزیشن بہتر بنانے کے لیے دوبارہ متحرک ہوا ہے۔ اگر ان کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ ن لیگ سے نہیں بھی ہو گی تو بھی یہ اپنے آزاد امیدوار کھڑے کریں گے جن کا نئی بننے والی حکومت میں اہم کردار ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ جو دو روز قبل ملاقات ہوئی یہ صرف ایک سیاسی حاضری کے لیے تھی۔ کیونکہ ابھی انتخابات کا دور دور تک کوئی نشان نہیں ہے۔ اور اصل سیاسی لڑائی اس وقت وفاقی سطح پر جاری ہے۔‘
جہانگیر ترین گروپ کی اس میٹنگ میں اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض بھی موجود تھے اس حوالے سے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تاہم وہ دستیاب نہیں تھے۔

شیئر: