عدالتی اصلاحات: نواز شریف، جہانگیر ترین اور گیلانی نااہلی کے خلاف اپیل کر سکیں گے؟
عدالتی اصلاحات: نواز شریف، جہانگیر ترین اور گیلانی نااہلی کے خلاف اپیل کر سکیں گے؟
بدھ 29 مارچ 2023 19:31
روحان احمد، اردو نیوز، اسلام آباد
سابق چیف جسٹس (ریٹائرڈ) شائق عثمانی نے کہا کہ ’نواز شریف دیگر افراد کے کیسز پر نئے قوانین کا اطلاق نہیں ہوگا۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی قومی اسمبلی نے بدھ کو عدالتی اصلاحات کا بل ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجز ایکٹ 2023‘ اتفاق رائے سے منظور کرلیا ہے۔
اصلاحاتی بل کی ایک شق 184 (3) کے تحت عدالت کی جانب سے لیے گئے ازخود نوٹس کے فیصلے کے خلاف 30 دن کے اندر اپیل دائر کی جا سکتی ہے جس کے بعد 14 دنوں میں سپریم کورٹ اس کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دینے کا پابند ہو گی۔
بل میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اپیل کرنے کا حق اس متاثرہ فرد کو کوبھی دستیاب ہوگا جس کے خلاف حکم اس ایکٹ سے پہلے 184 (3) کے تحت جاری کیا گیا ہو۔‘
بل کے مطابق اس ایکٹ کے قانون بننے کے 30 دن کے اندر وہ افراد بھی فیصلوں کے خلاف اپیل کر سکتے ہیں جو ماضی میں متاثر ہوئے ہوں۔
’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجز ایکٹ 2023‘ قومی اسمبلی سے تو منظور ہو چکا ہے لیکن اسے قانون بنانے کے لیے حکومت کو اسے سینیٹ سے بھی منظور کروانا ہوگا۔
اس بل کی قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد بعض حلقوں کی جانب سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس بل کو منظور کروانے کا مقصد سابق وزیراعظم نواز شریف اور عدالت کی طرف سے نااہل قرار دیے گئے دیگر سیاستدانوں کو اپیل کا حق دینا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیئر رہنما فواد چوہدری نے اس حوالے سے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ حکومت کی جانب سے اس بل کو منظور کروانا نواز شریف کو ’نا اہلی کے خلاف ریلیف‘ دینے کی کوشش ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’نواز شریف کی نا اہلی آرٹیکل 184 (3) کے تحت ہوئی۔ عام قانون سے آپ اس کو کیسے بدل سکتے ہیں۔‘
خیال رہے سابق وزرائے اعظم نواز شریف، یوسف رضا گیلانی اور پی ٹی آئی کے سابق رہنما جہانگیر ترین سپریم کورٹ کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت لیے گئے سو موٹو یعنی ازخود نوٹس کے ذریعے نا اہل ہوئے تھے۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کو سپریم کورٹ نے پانامہ لیکس کیس میں جولائی 2017 کواپنے بیٹے کی کمپنی سے قابل وصول تںخواہ کو ظاہر نہ کرنے پر نااہل قرار دیا تھا۔
اسی طرح پی ٹی آئی کے سابق رہنما جہانگیر ترین کو بھی سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت اثاثے ظاہر نہ کرنے پر نااہل قرار دیا تھا۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے تعلق رکھنے والے یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ نے آصف زرداری کے خلاف کرپشن کیس کی تحقیقات پر عدالتی حکم نہ ماننے پر توہین عدالت کے الزام میں جون 2012 کو پاکستان کے وزیراعظم کی مسند سے ہٹا دیا تھا۔
کیا ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجز ایکٹ 2023‘ کی منظوری کے بعد نواز شریف، جہانگیر ترین اور یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف اپیل کرنے کا حق حاصل ہوجائے گا؟
سپریم کورٹ کے وکیل حیدر وحید یہ سمجھتے ہیں کہ ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجز ایکٹ 2023‘ کے قانون بن جانے کے بعد نواز شریف، جہانگیر ترین اور دیگر افراد کو بھی اپنے ماضی کے مقدمات میں فیصلوں کے خلاف اپیل کرنے کا حق حاصل ہوجائے گا۔‘
ان کے مطابق ’قانون بن جانے کے بعد 30 دن کے اندر نواز شریف سمیت دیگر افراد اپنے خلاف آنے والے فیصلوں کے خلاف اپیل کر سکیں گے۔‘
سندھ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس (ریٹائرڈ) شائق عثمانی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ’نواز شریف دیگر افراد کے کیسز پر نئے قوانین کا اطلاق نہیں ہوگا کیونکہ اس قانون کا اطلاق مؤثر ماضی نہیں ہوگا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’وہ تمام فیصلے ہو چکے اور ان پر عمل درآمد بھی ہوچکا۔‘
سابق جج نے کہا کہ حکومت کی جانب سے عدالتی قوانین میں ترامیم کا مقصد تو اچھا ہے لیکن ’طریقہ کار درست نہیں۔‘
ان کے مطابق ایک قانون کے ذریعے آئین میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی بلکہ آئین میں ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ موجودہ حکومت کے پاس موجود نہیں۔
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل اکرام چوہدری بھی جسٹس (ریٹائرڈ) شائق عثمانی سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عدالتی پروسیجر میں تبدیلی ہونے کے بعد بھی نواز شریف، جہانگیر ترین اور یوسف رضا گیلانی کو اپنے کیسز میں کیے گئے فیصلوں کے خلاف اپیل نہیں کر سکیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’نئے قوانین کا اطلاق نواز شریف، جہانگیر ترین اور یوسف رضا گیلانی کے کیسز پر نہیں ہوگا کیونکہ نئے بننے والے قوانین کا اطلاق ماضی کے کیسز پر نہیں ہوتا۔‘
سینیئر قانون دان سروپ اعجاز کا کہنا ہے کہ ان کے نزدیک یہ معاملہ بھی سپریم کورٹ ہی جائے گا کیونکہ ’لگتا یہ ہے کہ حکومت کا ارادہ ماضی کے کیسز میں بھی لوگوں کو اپیل کا حق دینے کا ہے۔‘
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’میرے خیال میں ان عدالتی اصلاحات کے معاملے کو بھی کوئی سپریم کورٹ لے جائے گا اور وہاں سے اس کی تشریح کروائی جائے گی کہ کیا اس قانون کے تحت ماضی میں بھی لوگوں کو سزاؤں کے خلاف اپیل کا حق دیا جا سکتا ہے یا نہیں۔‘