Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’آئینی طور پر درست قدم،‘ عدالتی اصلاحات پر قانون دان کیا کہتے ہیں؟

قومی اسمبلی میں عدالتی اصلاحات کے لیے قانون سازی کا بل پیش کیا جا چکا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی قومی اسمبلی میں عدالتی اصلاحات کے لیے قانون سازی کا بل پیش کردیا گیا ہے جس کے تحت کسی بھی معاملے پر ازخود نوٹس لینے کا فیصلہ چیف جسٹس سمیت سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین ججز کریں گے۔ 
منگل کو وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت وفاقی کابینہ نے خصوصی اجلاس میں عدالتی قوانین میں اصلاحات اور قانون سازی کے لیے بل کے مسودے کی منظوری دی جسے بعد میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ 
بل میں تجویز دی گئی ہے کہ سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین جج کسی بھی معاملے پر ازخود نوٹس لینے یا نہ لینے کا فیصلہ کریں گے۔ 
ازخود نوٹس کے فیصلے پر 30 دن کے اندر اپیل دائر کرنے کا حق حاصل ہوگا اور اپیل دائر ہونے کے 14 روز کے اندر درخواست کو سماعت کے لیے مقرر کرنا ہوگا۔ 
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ’پارلیمان کو عدالتی قوانین میں ترمیم کرنے کا حق حاصل ہے، تاہم موجودہ سیاسی صورت حال میں ان ترامیم کو متعارف کرنے کے وقت پر سوالات اٹھ سکتے ہیں۔‘
اس معاملے پر سینیئر قانون دان اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما حامد خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’آئین کے آرٹیکل 191 کے تحت پارلیمان کو قانون سازی کا اختیار حاصل ہے اور یہ آئینی طور پر ایک درست قدم ہے۔‘ 
انہوں نے مزید کہا کہ ’وکلا تنطیموں کا برسوں سے یہ مؤقف رہا ہے کہ (3) 184 جیسے معاملات صرف کسی ایک شخص کے اختیار میں نہیں ہونے چاہییں بلکہ دیگر سینیئر ججوں کی بھی اس معاملے میں رائے شامل کی جانی چاہیے۔‘ 
حامد خان کے مطابق ’اس قانون کو متعارف کروانے کے وقت پر سوال اٹھ سکتا ہے کیونکہ اس کے پیچھے کوئی سیاسی مقصد بھی ہو سکتا ہے لیکن قانونی ترمیم میں کوئی آئینی نقص نظر نہیں آتا۔‘ 

حامد خان کے مطابق ’آئین کے آرٹیکل 191 کے تحت پارلیمان کو قانون سازی کا اختیار حاصل ہے‘ (فائل فوٹو: حامد خان فیس بُک)

واضح رہے کہ اس وقت سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیر پختونخوا میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں تاخیر سے متعلق کیس زیر سماعت ہے۔
اس سے قبل اس معاملے پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے ازخود نوٹس لیا گیا تھا جس پر پیر کو سپریم کورٹ کے دو سینیئر ججوں کی جانب سے اعتراض سامنے آیا تھا۔
تحریری فیصلے میں سپریم کورٹ کے دو سینیئر ججوں نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ازخود نوٹس لینے اور بینچ تشکیل دینے کے اختیارات پر سوالات اٹھائے تھے۔ 
ایک اور وکیل فیصل چوہدری کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’سو موٹو پاورز کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت تو تھی لیکن حکومت نے جو طریقہ کار اور وقت کا تعین کیا ہے اس پر سوال اٹھیں گے۔‘ 
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آئین کے آرٹیکل 191 کے تحت اعلٰی عدالتیں اپنے پروسیجرز خود بناتی ہیں اور پارلیمان کا اس میں تبدیلی لانا مداخلت کہلائے گا جس سے سپریم کورٹ کی آزادی پر حرف آئے گا۔‘ 

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ’موجودہ سیاسی صورت حال میں ان ترامیم کو متعارف کرنے کے وقت پر سوالات اٹھ سکتے ہیں‘ (فائل فوٹو: اے پی پی)

سینیئر قانون دان عبدالمعیز جعفری فیصل چوہدری سے اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’آرٹیکل 191 بہت واضح ہے جو کہتا ہے کہ سپریم کورٹ اپنے پروسیجر کے معاملات آئین اور قانون کے تحت خود طے کرے گی۔‘ 
ان کے مطابق ’جب آئین کہہ رہا کہ عدالت کا پروسیجر آئین کے تحت ہوگا تو اس کا مطلب یہی ہے کہ آئینی ترمیم سے بھی اس (پروسیجر) کو ترتیب دیا جا سکتا ہے اور ایک عام قانون کے ذریعے بھی۔‘ 
عبدالمعیز جعفری نے مزید کہا کہ ان کے خیال میں یہ حکومت کی جانب سے متعارف کروائی جانے والی ترامیم ایک ’عام‘ اور ’مناسب قانون‘ ہے جو ’سو موٹو ایکشن لینے اور بینچوں کی تشکیل سے متعلق پروسیجر کی خامیوں کو دور کرتا ہے۔‘ 

شیئر: