پاکستان کی سپریم کورٹ نے صوبہ پنجاب میں انتخابات ملتوی کرنے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے انتخابات 14 مئی کو کرانے کا حکم دیا ہے۔
منگل کو سپریم کورٹ کی جانب سے دن 12 بج کر 33 منٹ پر اعلان کیا گیا کہ الیکشن التوا سے متعلق کیس کا فیصلہ سنایا جائے گا۔ وکلاء اور صحافی دوڑے دوڑے سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر ایک میں پہنچے۔ کمرہ عدالت میں عدالتی عملہ ہنگامی بنیادوں پر تیاری کرتا سنائی دیا۔
تین رکنی بینچ 12 بج کر 44 منٹ پر کمرہ عدالت میں پہنچا۔ چیف جسٹس نے کمرہ عدالت کا طائرانہ جائزہ لیا۔ ایک کونے میں بیٹھے صحافیوں کی جانب دیکھا اور قرآن کی آیت پڑھ کر فیصلہ سنانا شروع کر دیا۔
مزید پڑھیں
-
الیکشن کمیشن کے معطل کیے گئے فیصلے میں کیا تھا؟Node ID: 755711
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کیا ہے؟
عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ آئین الیکشن کمیشن کو 90 دن سے آگے جانے کی اجازت نہیں دیتا۔ عدالت نے 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کرانے کا حکم دیا ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے 22 مارچ کو غیر آئینی حکم جاری کیا۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کا 30 اپریل کو پنجاب میں انتخابات کا شیڈول ترمیم کے ساتھ بحال کردیا۔
سپریم کورٹ نے حکومت کو 10 اپریل تک فنڈز مہیا کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب کی نگراں حکومت، چیف سیکرٹری اور آئی جی 10 اپریل تک الیکشن کی سکیورٹی کا مکمل پلان پیش کریں۔ وفاقی حکومت کو 21 ارب جاری کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر وفاقی اور نگراں حکومت نے الیکشن کمیشن کی معاونت نہ کی تو کمیشن سپریم کورٹ کو آگاہ کرے۔
سپریم کورٹ کے حکم میں کہا گیا ہے کہ ’عدالت میں دیگرمعاملات کوبھی اٹھایا گیا۔ عدالتی کارروائی چلانے سے دو ججز نےمعذرت کی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جو فیصلہ کیا، اس کا ہمارے بینچ پر کوئی اثر نہیں۔ خیبرپختونخوا میں الیکشن کا معاملہ الگ سے دیکھا جائے گا۔عدالت کا تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔‘
حکومت کے پاس کیا آپشنز ہیں؟
اس فیصلے سے سپریم کورٹ کے بینچ سے ججوں کی بینچ سے علیحدگی، اختلافی نوٹس اور ان پر تفصیلی فیصلے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کی روشنی میں اٹارنی جنرل اور الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر کے دلائل کو سامنے رکھیں تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ حکومت اب بھی انتخابات کی طرف نہیں جانا چاہتی۔ ایسے میں ان کے پاس آپشنز کیا ہیں؟
اس حوالے سے مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی اور قانونی ماہر محسن شاہ نواز رانجھا نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’عدالت کا فیصلہ ابھی آیا ہے۔ اس میں بہت سے مراحل ابھی باقی ہیں۔ ایک تو ہم نظرثانی میں جائیں گے۔ اس دوران 184(3) کے حوالے سے ہونے والی قانون سازی پر اگر دستخط ہو جاتے ہیں تو حکومت کے پاس اپیل کا حق بھی آ جائے گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ کہنا درست نہیں ہے کہ ہم عدلیہ سے لڑ رہے ہیں بلکہ عدلیہ کے اندر سے جو آوازیں اٹھ رہی ہیں وہ ہمارے حق میں ہیں اور ہمارے موقف کی تائید ہیں۔ اس لیے ہم عدلیہ سے لڑیں گے نہیں بلکہ عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔‘
