Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب میں قدم جمانے میں کامیاب ہو پائے گی؟

پیپلز پارٹی اتحادی حکومت کا حصہ ہے، لیکن اس کے ارکان نے کوئی بھی ایسی وزارت نہیں لی جس کا براہ راست عوام سے تعلق ہو (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان پیپلز پارٹی اتحادی حکومت کا حصہ ہونے کے باوجود کافی محتاط انداز میں سیاست کر رہی ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف بننے والے اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پیپلز ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شمولیت اور پھر اس سے علیحدگی پیپلز پارٹی کے اسی محتاط طرزِ سیاست کی عکاس ہے۔ 
اس وقت بھی پیپلز پارٹی اتحادی حکومت کا حصہ ہے لیکن اس کے ارکان نے کوئی بھی ایسی وزارت نہیں لی جس کا براہ راست عوام سے ایسا تعلق ہو، جو ووٹرز پر اثر انداز ہو سکتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مہنگائی اور دیگر مسائل پر ہونے والی زیادہ تر تنقید کا نشانہ وزیراعظم شہباز شریف اور مسلم لیگ نواز کی قیادت بنتی ہے۔ 
پاکستان کی انتخابی سیاست پر نگاہ رکھنے والے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر پیپلز پارٹی اگلے الیکشن میں بڑی کامیابی چاہتی ہے تو اسے صوبہ پنجاب میں اپنی حمایت بڑھانا ہو گی۔ اور جب پنجاب کی بات کی جائے تو جنوبی پنجاب کے الیکٹیبلز سب سے پہلے ذہن میں آتے ہیں۔ یہ وہ افراد ہیں جو پارٹی کے ووٹ بینک پر زیادہ انحصار نہیں کرتے بلکہ اکثر شخصیت اور خاندان کی بنیاد پر الیکشن جیت جاتے ہیں۔ 
’پنجاب میں پیپلز پارٹی کی قابل ذکر کامیابی کا امکان نہیں‘ 
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑرائچ سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کا پنجاب میں کوئی بڑا ووٹ بینک نہیں ہے۔  
سہیل وڑائچ نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’جنوبی پنجاب میں شخصی ووٹ والی شخصیات تو اگلے الیکشن میں اچھا پرفارم کریں گی جن میں رضا ربانی، گیلانی خاندان، مخدوم احمد محمود شامل ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی کا جنوبی پنجاب میں ووٹ بینک دیگر دونوں بڑی پارٹیوں کے برابر نہیں ہے۔‘ 
سہیل وڑائچ جہانگیر ترین کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کے امکان کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ’جہانگیر ترین کو مسلم لیگ نواز سُوٹ کرتی ہے۔ اگر انہوں نے کچھ بات چیت کی تو وہ مسلم لیگ ن ہی کی طرف جائیں گے۔‘ 
اگلے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی پنجاب میں کوئی بڑی کامیابی حاصل کر سکے گی؟ اس سوال کے جواب میں سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ’پیپلز پارٹی پنجاب میں کوئی قابلِ ذکر کامیابی حاصل نہیں کر سکے گی۔ یہ 10 سیٹیں بھی لے لے تو بڑی بات ہے۔‘ 
’فی الحال امیدواروں کی پہلی ترجیح تحریک انصاف ہے‘ 
پاکستان میں الیکشن کی سیاست پر گہری نگاہ رکھنے والے صحافی احمد اعجاز نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’میں ابھی چند دن جنوبی پنجاب میں گزار کر آیا ہوں۔ میرے خیال بھی جنوبی پنجاب میں الیکشن کے حوالے سے صف بندی ہونا باقی ہے۔‘ 
انہوں نے بتایا کہ ’موجودہ حالات میں وہاں کے لوگوں کی پہلی ترجیح تحریک انصاف ہے۔ مسلم لیگ نواز کا دوسرا جبکہ پیپلز پارٹی کا نمبر تیسرا ہے۔‘ 

احمد اعجاز کا کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب کے بعض حلقوں میں شخصی ووٹ کا تأثر اب بھی موجود ہے (فوٹو: اے ایف پی)

احمد اعجاز نے بتایا کہ ’اب پیپلز پارٹی جن افراد کو ٹکٹ دینا چاہتی ہے، وہ رابطے کر رہے کہ انہیں حلقے میں پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک کے بارے میں  بتایا جائے۔ یہ واضح اشارہ ہے کہ وہاں پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک بہت زیادہ نہیں ہے۔‘ 
ان کا کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب کے بعض حلقوں میں شخصی ووٹ کا تاثر اب بھی موجود ہے۔ ’مثال کے طور پر خانیوال ہی کو دیکھ لیجیے۔ وہاں سے 2018 میں سید فخر امام آزاد حیثیت میں جیتے تھے اور بعد میں وہ تحریک انصاف میں شامل ہو گئے تھے۔ اس حلقے میں فخر امام اور ان کا مدمقابل ہراج گروپ مضبوط جڑیں رکھتا ہے، لیکن اس وقت وہاں ووٹوں کے اعتبار سے فخر امام پہلے نمبر پر کھڑے ہیں۔‘ 
’اب پیپلز پارٹی کی کوشش یہی ہے کہ ایسے مضبوط شخصی حمایت رکھنے والے افراد کے خلاف کوئی امیدوار کھڑا کرنے کے بجائے، انہی کو پارٹی میں لانے کی کوشش کی جائے۔ چنانچہ پیپلز پارٹی غور کر رہی ہے کہ کون کون اپنے علاقے سے اس وقت سیٹ جیتنے کی پوزیشن میں ہے۔‘ 
’اگر پیپلز پارٹی نے یہی حکمت عملی اختیار کی تو ممکن ہے کہ وہ جنوبی پنجاب سے 10 سے 15 سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہو جائے۔‘ 
احمد اعجاز نے بتایا کہ ’اس امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ جہانگیر ترین بھی اپنے گروپ سمیت پیپلزپارٹی کے ساتھ کسی ’مفاہمتی نکتے‘ تک پہنچ جائیں۔ ان کی کچھ عرصہ قبل مخدوم احمد محمود وغیرہ سے بھی صلح ہوئی ہے۔‘ 
جنوبی پنجاب سے پیپلزپارٹی کے اراکین اسمبلی 
پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس قومی اسمبلی میں جنوبی پنجاب سے اس وقت چھ نشستیں ہیں۔ جن میں این اے 157 ملتان سے علی موسیٰ گیلانی، این اے 178 رحیم یار خان چار سے سید مصطفیٰ محمود، این اے 180 رحیم یار خان 6 سے سید مرتضیٰ محمود، این اے 182 مظفر گڑھ 2 سے مہر ارشاد احمد خان، این اے 183 مظفر گڑھ تین سے رضا ربانی کھر جبکہ این اے 184 مظفر گڑھ چار سے نوبزادہ افتخار احمد خان بابر شامل ہیں۔ خواتین کے لیے مخصوص نشست پر حنا ربانی کھر رکن اسمبلی ہیں۔ اس کے علاوہ ملتان سے اقلیتوں کی نشست پر نوید عامر جیوا پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی ہیں۔

چوہدری منظور احمد کے مطابق ’پنجاب میں پارٹی کے لیے مشکل وقت ضرور تھا لیکن اب وہ گزر چکا ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

پنجاب میں پارٹی پھر اُبھرے گی: چوہدری منظور 
دوسری جانب پیپلز پارٹی پنجاب کے رہنما چوہدری منظور احمد آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے میں پارٹی کی بحالی کے حوالے سے کافی پرامید ہیں۔ 
چوہدری منظور نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر الیکشن ہوئے تو پیپلز پارٹی مکمل تیاری کے ساتھ میدان میں اترے گی اور تمام جگہوں سے امیدوار لائے گی۔ بالآخر پیپلز پارٹی کا ریوائیول ہونا ہی ہے۔‘ 
انہوں نے ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ذوالفقار علی بھٹو کے بعد لوگوں نے کہا تھا کہ پیپلز پارٹی ختم ہو گئی لیکن اس نے 90 کے الیکشن میں ریوائیو کیا۔1997 میں تو پارٹی کے پاس ایک سیٹ بھی نہیں تھی۔‘ 
’پنجاب میں پارٹی کے لیے مشکل وقت ضرور تھا لیکن اب وہ گزر چکا ہے۔‘ 
’یہاں سیاسی وابستگیاں بدلنے میں وقت نہیں لگتا‘ 
جنوبی پنجاب کی سیاست پر نگاہ رکھنے والے سیاسی تجزیہ کار شاکر حسین شاکر کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی کی مستقبل کی حکمت عملی کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا، تاہم وہ بھی سمجھتے ہیں کہ گراؤنڈ پر تحریک انصاف کی لہر ابھی زور میں ہے۔ 
شاکر حسین شاکر نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’جنوبی پنجاب کے بارے میں الیکشن سے بہت پہلے کوئی پیشگوئی کرنا آسان نہیں ہے۔ یہاں سیاسی وابستگیاں بدلنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔‘ 

شاکر حسین شاکر کا کہنا تھا کہ ’پچھلے ایک برس میں پی ڈی ایم نے بہت کچھ کھویا کیا ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے ماضی کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ ’یہاں کے ایک سیاست دان دیوان عاشق حسین بخاری ہیں۔ 90ء کی دہائی کے اوائل کا واقعہ ہے۔ انہوں نے بے نظیر بھٹو کو ایئر پورٹ پر خوش آمدید کہا اور وہیں سے واپس جا کر مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ دوسری مثال عامر ڈوگر کی ہے۔ ان کا تعلق بھی پیپلز پارٹی سے تھا، وہ کافی متحرک بھی تھے، لیکن وہ ماضی قریب میں ہونے والے انتخابات میں آزاد حیثیت سے شامل ہوئے اور جیتنے کے بعد تحریک انصاف میں چلے گئے۔‘ 
پیپلز پارٹی کے علی موسیٰ گیلانی سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’علی موسیٰ گیلانی کو اپنے حلقے کے لیے ریسکیو 1122 کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وہ اپنے حلقے کے علاوہ کسی کا فون نہیں سنتے، لیکن اگلے الیکشن میں وہ اپنی سیٹ نکال لیں تو یہ بہت بڑی بات ہو گی۔ کیونکہ حلقے میں لوگوں کی بہت سی توقعات ہوتی ہیں جو پوری نہ ہوں تو شکایتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔‘ 
شاکر حسین شاکر نے بتایا کہ ’اس سے قبل 2018 کے الیکشن میں پیپلزپارٹی نے ضلع مظفرگڑھ سے ایک سے زائد نشستیں جیتی تھیں، اب میرا خیال ہے کہ وہ صرف رضا ربانی کھر والی نشست ہی جیت سکیں گے۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’جنوبی پنجاب میں نظریاتی ووٹ کم جبکہ شخصی ووٹ زیادہ ہے۔ لیکن ماضی قریب کے ضمنی انتخابات میں دیہی علاقوں سے بھی تحریک انصاف کو ووٹ ملنا دیگر پارٹیوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔‘ 
’جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی نے محنت نہیں کی‘ 
کیا پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب میں بڑا فرق ڈال سکے گی؟ اس سوال کے جواب میں شاکر حسین شاکر کا کہنا تھا کہ ’پچھلے ایک برس میں پی ڈی ایم نے بہت کچھ کھویا ہے۔ جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی نے محنت نہیں کی اور تنظیم سازی پر بھی توجہ نہیں دی گئی۔ پارٹی میں وہی پرانے عہدے دار ہیں جو شاید خود بلدیاتی الیکشن بھی نہ جیت پائیں۔ ایسے میں کچھ زیادہ بڑا فرق کیسے ڈالا جا سکتا ہے؟‘ 
جنوبی پنجاب کی سیاست کے ایک اہم کردار جہانگیر خان ترین اور مخدوم احمد محمود کے حوالے سے ان کا خیال ہے کہ ’اگر کوئی بڑی تبدیلی مطلوب ہوئی تو ممکن ہے اسٹیبلشمنٹ ان پر ہاتھ رکھے۔‘ 

شیئر: