وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ’چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی حیثیت متنازع ہو چکی ہے انہیں استعفیٰ دے دینا چاہیے۔‘
جمعے کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مریم اورنگزیب نے جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ آئینی بحران ازخود نوٹس سے شروع ہوا۔ ڈیڑھ لاکھ کیسز زیرالتوا ہیں جن پر آپ آئین کے مطابق ازخود نوٹس لے سکتے ہیں۔ اس سے مس کنڈکٹ، آئین کی غلط تشریح اور اختیارات کا ناجائز استعمال ہوا ہے جس پر چاروں ججز کے فیصلے مہر لگاتے ہیں۔ اس کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان کی اپنی پوزیشن متنازع ہو چکی ہے، انہیں استعفیٰ دینا چاہیے۔‘
مزید پڑھیں
-
جب شدّتِ جذبات سے چیف جسٹس کی آواز بھر آئیNode ID: 754741
سپریم کورٹ کی طرف سے جاری کیے گئے جسٹس اطہر من اللہ کے تفصیلی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے حوالے سے ازخود نوٹس چار تین سے مسترد ہوا تھا اور وہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کی جانب سے اسے مسترد کیے جانے کے بارے میں دی گئی آرا سے متفق ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’عدالت کو کسی بھی سیاسی تنازع سے بچنے کے لیے اپنے پچھلے نوٹ میں فل کورٹ کی تشکیل کی تجویز دی تھی کیونکہ اس سے ادارے پر عوام کا اعتماد قائم رہتا۔‘
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے کہا کہ ’سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ کا آج کا فیصلہ بہت اہم ہے۔ اس فیصلے کی اہمیت اس لیے زیادہ ہے کیونکہ ایک سماعت میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات کی پیٹیشن کو چار ججز نے مسترد کیا تھا جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے سے فیصلے آج وہ مکمل ہو جاتا ہے۔‘
مریم اورنگزیب نے کہا ’چار اکثریتی ججز جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس یحییٰ آفریدی اور اب جسٹس اطہر من اللہ سمیت چاروں نے فیصلہ دے دیا ہے اور آج کے فیصلے میں نہ صرف عدالتی کارروائی کے اوپر سوالیہ نشان ہے بلکہ دو ٹوک انداز میں کہا ہے کہ نہ وہ اس بینچ سے الگ ہوئے تھے اور نہ انہوں نے بینچ میں بیٹھنے سے معذرت کی تھی۔ اور انہوں نے اپنے تینوں ساتھی ججز کے اتفاق کرتے ہوئے پیٹیشن کو ناقابل سماعت قرار دیا اور ڈسمس کر دیا۔‘
وفاقی وزیر نے کہا کہ ’چار، تین کی اکثریت سے یہ پیٹیشن ڈسمس ہو چکی ہے۔ ناقابل سماعت پیٹیشن کے اوپر، ایک ڈسمس شدہ پیٹیشن کے اوپر چیف جسٹس پاکستان نے تین رکنی بینچ بنایا۔ جب پیٹیشن ڈسمس ہو گئی ہے تو اس کے اوپر بینچ کیوں بنا، جب پیٹیشن ہے ہی نہیں تو فیصلہ کیسے آیا۔‘
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے کہا کہ سیاسی جماعتوں نے ایک موقف اپنایا کہ آپ فل کورٹ بنا دیں حالانکہ وہ پیٹیشن ڈسمس ہو چکی ہے، لیکن جنہوں نے وہ پیٹیشن ڈسمس کی ’ان ججز نے بھی کہا کہ فل کورٹ بنا کر فیصلہ لے لیں کیونکہ پاکستان کی عوام کا اعتبار کورٹ پر بحال وہ سکے۔‘
انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں نے یہ جانتے ہوئے کہ یہ پیٹیشن ڈسمس ہو گئی ہے اور وہ سیاسی جماعتیں جنہوں نے اس ملک کو بنانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے، انہوں نے یہ کہا کہ آپ اس پر فل کورٹ بنا دیں کیونکہ آئینی سوالات اٹھ گئے ہیں۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ سیاسی جماعتیں الیکشن سے بھاگتی نہیں ہوتیں لیکن الیکشن کے وہ فیصلے جو مسلط کرائے جائیں جو اپنی سیاسی حکمت عملی کو تقویت دینے کے لیے کرائے جائیں وہ ناقابل قبول ہوتے ہیں۔ ’یہ اب الیکشن کا معاملہ نہیں رہا یہ اس بینچ فکسنگ کا معاملہ ہے، یہ اب اس عدالتی سہولت کاری کا معاملہ ہے جس پر آج جسٹس اطہر من اللہ نے سوالات اٹھائے ہیں۔ اور انہوں نے کہا ہے کہ وہ آئینی یا قانونی کارروائی جو کسی سیاسی حکمت عملی کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال ہو اس کی اجازت نہیں ہے۔‘
’پی ٹی آئی کی طرف ان کا جھکاؤ نمایاں ہے‘
قبل ازیں مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے بھی کہا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو مستعفی ہو جانا چاہیے۔
جمعے کو پہلے ایک ٹویٹ میں انہوں نے چیف جسٹس پر الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے عمران خان اور پی ٹی آئی کی حمایت کے لیے قانون اور آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے۔ اختیارات کے اس صریح غلط استعمال نے پاکستان کی سپریم کورٹ میں بغاوت جیسی غیر معمولی صورتحال کو جنم دیا ہے۔ ججز نے چیف جسٹس کے طرز عمل اور غیرجانبداری پر سنگین سوالات اٹھائے ہیں۔‘
No CJ has ever been accused of such misconduct. His tilt towards PTI is glaring. CJP Bandiyal must RESIGN. #GoHomeBandiyal https://t.co/kE4qdozxVy
— Maryam Nawaz Sharif (@MaryamNSharif) April 7, 2023